ہمارے ہاں کوئی حادثہ یا سانحہ ہوجائے، سیاسی یا مذہبی گروہوں کا تصادم ہوجائے، کوئی مذہبی ہو، سیاسی ہو، سول سوسائٹی کا نمائندہ ہو یا فرد ہو، یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ اس مسئلے پر ’’جوڈیشل کمیشن‘‘بنایا جائے، چیف جسٹس آف پاکستان از خود نوٹس لیں اور ہمیں انصاف فراہم کریں، وغیرہ۔ حالانکہ آج تک کسی جوڈیشل کمیشن سے کسی کا مَن پسند نتیجہ برآمد نہیں ہوا، قومی معاملات کے بارے میں جو عدالتی کمیشن بنائے گئے، اُن کی رپورٹ کم ہی سامنے آئی ہے اور نہ اُس کے نتیجے میں کسی کو انصاف ملا ہے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان پر حمود الرحمن کمیشن بنا، لیکن نہ اس کے حقائق منظرِ عام پر آئے اور نہ اس کی سفارشات پر کہیں عمل ہوتا ہوا نظر آیا، آدھے سے زیادہ ملک چلا گیا، لیکن نہ کوئی مجرم قرار پایا اور نہ کسی کو سزا ملی، فیض احمد فیض نے کہا تھا:
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا
ایبٹ آباد میں امریکا کے فضائی آپریشن کے نتیجے میں اسامہ بن لادن قتل کے بارے میں جنابِ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں کمیشن بنا، کافی عرصے تک رونقیں لگی رہیں، کئی لوگوں کو کمیشن کے روبرو بلایا گیا، کہا جاتا ہے کہ ایک ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار ہوئی، لیکن نہ اس کے بطن سے کچھ نکلا، نہ وہ رپورٹ منظرِ عام پر آئی اور نہ کسی کو اس ذلّت ورسوائی کا ذمے دار قرار دیا گیا۔ جسٹس جاوید اقبال کو گمشدہ اشخاص کے کمیشن کا بھی چیئرمین بنایا گیا اور تاحال وہ اس منصب پر فائز ہیں، لیکن اس کی بھی کوئی قابلِ ذکر کارکردگی سامنے نہ آئی۔ نیب کے چیئرمین کی حیثیت سے تو اُن کا دور انتہائی متنازع رہا، بس انہوں نے اسے اپنی تشہیر کے لیے استعمال کیا اور کہاجاتا ہے: اپنی بے راہ روی کی کارستانیوں کی وڈیو لیک ہونے پر وہ اُس دور کی حکومت کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہے، استعمال ہوتے رہے، لیکن کوئی کارکردگی سامنے نہ آئی، بلکہ حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے لوگ ہمارے ہاں عدالت عظمیٰ کے جج کے منصب پر فائز ہوجاتے ہیں۔ نیب کی بابت تو خود ایک انکوائری کمیشن بننا چاہیے کہ اس ادارے کے قیام سے لے کر آج تک قومی خزانے سے اس پر کتنا خرچ ہوا، ملک وقوم کو اس سے کیا فیض ملا اور زبانی دعووں کے برعکس حقیقی معنوں میں قومی خزانے میں کتنی لوٹی ہوئی رقم واپس آئی اور نیب میں متعین لوگوں نے کتنا مال بنایا۔
عمران خان نے 2013 کے قومی انتخابات کے بارے میں منظّم دھاندلی کا الزام لگایا تھا اور اس کی بابت منظّم احتجاجی تحریک بھی چلائی، پھر عدالت عظمیٰ کے عالی مرتبت جج صاحبان پر مشتمل انکوائری کمیشن بنا اور اس کمیشن نے اس الزام کو ردّ کردیا کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی، ظاہر ہے جب انکوائری کا نتیجہ کسی کی مرضی کے مطابق نہ آئے تو وہ بھی اُسے ردّکردیتا ہے۔ ایک عرصے تک عمران خان پینتیس پنکچر کی گردان کرتے رہے، لیکن جب عدالت میں اُن سے ثبوت مانگا گیا تو انہوں نے اسے محض ایک سیاسی بیان قرار دیا اور اس کا ملبہ ڈاکٹر شاہد مسعود پر ڈالا، کیونکہ سب سے پہلے انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا، لیکن بعد میں انہوں نے بھی اپنے اس جھوٹے الزام پر معافی مانگ لی، اسی طرح ڈاکٹر معید پیر زادہ نے بھی اظہارِ تاسّف کیا کہ وہ ادارے کی رپورٹوں پر تحقیق کے بغیر اعتماد کرکے دھوکا کھاگئے۔
پاناما اسکینڈل پر عدالت عظمیٰ کے بنچ نے انکوائری کی، شہرۂ آفاق جے آئی ٹی بنی، کہا جاتا ہے کہ وٹس ایپ پر کمیشن کے ارکان کے نام تجویز کیے گئے، دس ضخیم مجلّدات پر مشتمل تحقیقی مواد تیار کیا گیا، بیرونِ ملک سے بھی تحقیقات میں مدد لی گئی۔ لیکن پھر اس وقت کے وزیر اعظم کی نا اہلی کے لیے ’’بلیک لا ڈکشنری‘‘ کا سہارا لینا پڑا اور انکم ٹیکس ریٹرن میں غیر وصول شدہ مگر واجب الوصول تنخواہ کا ذکر نہ کرنے پر انہیں تاحیات نا اہل قرار دے دیا گیا، باقی سب فسانۂ عجائب ہے جو ہماری عدلیہ کے رُخِ تاباں پر سجا رہے گا اور تاریخ میں کبھی اس کا ذکر شاندار الفاظ میں نہیں ہوگا، بلکہ ملامت ہی سننے کو ملے گی۔
یہ بھی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہماری مرضی کا کمیشن بنایا جائے، ریفرنس کی شرائط بھی ہماری مرضی کی ہوں، اس کے باوجود اگر مرضی کا نتیجہ یا رپورٹ یا سفارشات نہ آئیں تو انھیں ردّ کردیا جاتا ہے۔ اب عمران خان پر قاتلانہ حملے اور صحافی ارشد شریف کے کینیا میں قتل کی بابت وزیر اعظم نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس سے فُل کورٹ کمیشن بنانے کی استدعا کی ہے۔ تاحال معلوم نہیں ہے کہ عدالت عظمیٰ کا ردّعمل کیا آتا ہے، آیا کمیشن بنتا ہے یا نہیں، اگر بنتا ہے تو اُس کی ساخت کیا ہوتی ہے اور اُس پر متاثرہ فریقوں کو اعتماد ہوتا ہے یا نہیں یا اُس کمیشن کی تحقیقات کے نتیجے کو مانا جائے گا یا نہیں، اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ جسٹس (ر) عبدالشکور کو وزیر اعظم نے ارشد شریف قتل کیس کے کمیشن کے لیے نام زد کیا تھا، لیکن متاثرہ فریق کے عدمِ اعتماد پر انہوں نے اس سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ کے ججوں پر مشتمل عدالتی کمیشن بن بھی جائے تو کیا وہ زمین کی تہہ سے کوئی خزینۂ معلومات نکال لائیں گے، انہیں بھی متعلقہ اداروں کی فراہم کردہ معلومات پر انحصار کرنا پڑے گا، بس فرق اتنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے عالی مرتبت جج صاحبان جس سرکاری اہلکار کو جب بھی بلانا چاہیں تو وہ ایسا کرسکتے ہیں، اُن کی ڈانٹ ڈپٹ کرسکتے ہیں، اُن کو بے توقیر کرکے حظّ اٹھا سکتے ہیں، عالی مرتبت جج صاحبان کے فرمودات ٹِکر یا رپورٹ کی صورت میں ٹیلی ویژن اسکرین پر چل سکتے ہیں، عام کمیشن کے ارکان کو یہ اعزاز نہیں مل سکتا، اس کے سوا کچھ نہیں۔
اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن یعنی سراغ رسانی اور تحقیق وتفتیش کے اداروں کو طاقت ور بنایا جائے، اس کے لیے انتہائی ذہین اور مہارت کے حامل اہلکاروں کا تقرر کیا جائے، وہ اپنے کام میں خود مختار ہوں، حکومت ِ وقت کے تابعِ مُہمل نہ ہوں، انہیں بھی عدالتی اختیارات حاصل ہوں تاکہ وہ ہرسرکاری اہلکار یا شکایت کنندہ کو طلب کرسکیں، وہ خود بھی اپنے شعبے کے ماہر ہوں اور ماہرین کی مدد بھی لے سکیں۔ عمران خان کو تو عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے جج صاحبان بھی آسانی سے طلب نہیں کرسکتے، بلکہ عالی مرتبت جج صاحبان اُن کے لیے قوانین اور ضابطوں میں لچک پیدا کرکے عدالت میں حاضری کے بغیر اُن کی ضمانت منظور کرلیتے ہیں، یہ رعایت کسی اور کو حاصل نہیں ہے، اُن کو بعض اوقات استدعا کے بغیر رعایت مل جاتی ہے۔ چنانچہ 25جولائی کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے پرمِن وعن عمل نہ ہوا، احتجاج کرنے والے ڈی چوک پر آگئے اور درختوں تک کو جلادیا، پھر عدالت عظمیٰ میں یہ مسئلہ پیش ہوا تو عزت مآب چیف جسٹس نے عدالتی کارروائی کے درمیان فرمایا: ’’شاید عمران خان کو ہمارے فیصلے کی بابت صحیح اطلاع نہ پہنچائی گئی ہو‘‘، حالانکہ اُس اطلاع کی تشہیر تو اُس دن تسلسل کے ساتھ درجنوں ٹی وی چینلوں پر ہورہی تھی، لیکن خان صاحب کی قسمت کا مقابلہ کون کرسکتا ہے۔
پہلے ہر متاثرہ فریق اور ہر شہری آرمی چیف کو دہائی دیتا تھا کہ مجھے انصاف فراہم کیا جائے، لیکن بدلے ہوئے حالات میں اب ہر فریق اور ہر فرد کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ چیف جسٹس انصاف فراہم کریں۔ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اب طاقت کا ارتکاز اُن کی ذات میں ہوگیا ہے اور دوسرے یہ کہ اُن کے ماتحت مختلف سطحوں پر قائم نظامِ عدل پر لوگوں کا اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ طاقت کا ایک ذات یا ایک منصب میں ارتکاز دودھاری تلوار ہے، اگر اسے عدل کے اعلیٰ معیارات پر شفاف طریقوں سے استعمال کیا جائے تو یہ متاثرین کے لیے اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی نعمت ثابت ہوتا ہے اور اگر اس میں جَھول آجائے، میزانِ عدل کسی ایک جانب جھک جائے تو یہ صورت ِ عذاب بن جاتی ہے۔ سو اب مقتدرہ کی بے توقیری کے بعد چیف جسٹس کی ذات اور منصب کا امتحان ہے، عربی کا مقولہ ہے: ’’امتحان کے وقت آدمی یا تو عزت پاتا ہے یا رُسوائی کماتا ہے‘‘۔ ہماری مخلصانہ دعا ہے: ’’ہمارے عالی مرتبت چیف جسٹس قوم میں شفاف عدل کی خیرات تقسیم کریں اور عزت سمیٹ کر رخصت ہوں‘‘، ورنہ آج اُن کے پیش روئوں کا ذکر جن الفاظ میں کیا جاتا ہے، اس کا انہیں بخوبی اندازہ ہوگا۔
خان صاحب بھی عوامی مقبولیت کے جس مقام پر ہیں، ہماری دعا ہے: وہ اپنی شخصیت میں توازن پیدا کریں، قدرے صبر کا مظاہرہ کریں، تھوڑا سا انتظار کرلیں، سیاست میں تنائو اور انتشار کو کم کریں، اپنے مخالفین کے لیے تھوڑی سی گنجائش پیدا کریں، نفرت میں کمی لائیں، سیاسی مکالمے کا حصہ بنیں تاکہ اگر دوبارہ اقتدار اُن کے مقدر میں ہے تو ملک اُن کو بہتر حالت میں ملے۔ وہ اور اُن کے مخالفین اقتدار کی تلخی اور شیرینی کا مزا چکھ چکے ہیں، ہمارے نظامِ آئین وقانون میں جہاں جَھول یا عدم توازن ہے، اُس کی اصلاح کریں۔ بعض اداروں کے لیے قانونی ضوابط نہ ہونے کے سبب اختیارات لامحدود ہیں، لامحدود اختیارات لامحدود خواہشات کو جنم دیتے ہیں، انہیں مہم جو بنادیتے ہیں، حدود سے تجاوز ہوتا ہے، اس کے نتائج ہم نے کافی بھگت لیے ہیں۔ قوموں کی اجتماعی دانش کی پختگی اور آئینی وقانونی نظام کے خیر وشر کو جانچنے کے لیے پچھتر برس کی مدت کافی ہوتی ہے، اگر کسی قوم کی اجتماعی دانش پون صدی میں بھی پختہ نہ ہوسکے تو پھر اسے زوال سے کوئی نہیں بچاسکتا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتیں، سو آپ بدی کا ازالہ بہترین طریقے سے کریں، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جس شخص کے ساتھ تمہاری دشمنی ہے، وہ تمہارا جگری دوست بن جائے گا‘‘۔ (حم السجدہ: 34) کراچی کی دیواروں پر ماضی میں ایک شعر لکھا ہوتا تھا: ’’وفا کرو گے، وفا کریں گے، جفا کرو گے جفا کریں گے ٭ ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے، جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے‘‘، اس پر ایک صاحب ِ نظر نے کہا: ’’جفا کرو گے، وفا کریں گے، دغا کرو گے، دعا کریں گے ٭ نہیں آدمی ہم تمہارے جیسے، نہ وہ کریں گے، جو تم کرو گے‘‘۔