سندھ کی ایک قدیم کہاوت تھی کہ ’’دودھ اور پوت‘‘ بیچنے کے لیے نہیں ہوتے ہیں اور یوں اللہ نے جن کو مال مویشی سے نوازا تھا وہ دودھ فروخت نہیں بلکہ بانٹا کرتے تھے اور یوں رب کا شکر ادا کرتے تھے کہ جب وہ صبح و شام دودھ کی دھائی یعنی نکالتے تھے تو گائوں، گوٹھ کے ضرورت مند قطار در قطار کھڑے ہوتے اور مالدار، وڈیرے ان کے برتنوں میں حصہ بقدر جثہ ڈال کر ثواب دارین کے طلب گار ہوتے۔ سندھ میں مالدار ہونے کا پیمانہ مال مویشی ہوا کرتے تھے۔ 1960ء تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ مالدار دودھ کی فروخت کو شان کے خلاف سمجھتے رہے اور ہاں غرباء مساکین گزارہ خاطر شہریوں کو گھر پر دودھ فروخت کرتے تھے، پھر مال کی دولت کے فتنہ نے سر اُبھارا تو 1990ء کے لگ بھگ یہ حالت ہوئی کہ صحافیوں کا ایک وفد جب ایک قبیلہ کے علاقائی سردار کی دعوت میں ایک قصبہ میں گیا تو راقم نے اُس سردار سے گزارش کی کہ اب سندھ میں کہا جاتا ہے کہ خالص دودھ وہ ہی پی سکتا ہے جس کی اپنی بھینس ہو تو ذرا پانی سے پاک خالص دودھ کی عنایت ہوجائے۔
اس فرمائش پر بڑے قبائل سردار کی پیشانی پر پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔ اُس نے کہا کہ دیر ہوگئی دودھ تو شہروں میں فروخت کے لیے بھجوادیا کوشش کرتا ہوں اور پھر یوں چند گھونٹ دودھ کا ہر اک کے لیے بندوبست کرپایا ان دنوں دودھ میں پانی کی ملاوٹ ہوا کرتی تھی الا بلا کی ملاوٹ اب اس قدر ہوگئی ہے کہ اب پانی ملے دودھ کی تلاش ہے کہ کیمیکل کا تیار کردہ دودھ درکار نہیں۔ ابھی نمائشی طور پر دوچار بھینسیں باڑوں میں کھڑی کر رکھی ہیں اور کیمیکل کا تیار کردہ دودھ فروخت ہورہا ہے۔ ایک صاحب کے مطابق اُس نے اپنے دوست باڑے والے کو خالص دودھ دوا کی تیاری کے لیے کہا تو اُس نے کہا کہ کل لے لینا دوسرے دن وہ دودھ لینے گئے تو دوست کا بھائی تھا اُس نے دو دودھ کی تھیلیاں نکالی اور پرکھنے لگا کہ اصلی کون سی تھیلی ہے ایک تھیلی پڑتال کے بعد اُسے تھمادی، اس تھیلی کے دودھ سے دوا تیار نہ ہوئی تو اس نے جب دوست کو شکایت کی تو اس نے سر جھکا کر شرمندگی سے کہا کہ تھیلی تبدیل ہوگئی۔
اب یہ کیمیکل جس سے دودھ تیار کیا جارہا ہے وہ ہے جو مردے کی لاش کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اُسے پانی ملا کر دودھ کی رنگت میں تبدیل کردیا جاتا ہے اور مردہ ضمیر شیر فروش یوں انسانی صحت و زندگی سے کھیل رہے اور قیمت آئے روز بہانوں سے بڑھا رہے ہیں کہ دودھ کی ضرورت کی قیمت کیش کرانی ہے۔ دودھ کی ضرورت ہوٹلوں نے بڑھا دی ہے جہاں چائے کے دور چلتے ہیں اور چائے کے سوالی دودھ کی پھینٹ پیسے دے کر خریدتے ہیں۔ ملک بھر میں ہوٹل دودھ کی قلت کا سب سے بڑا باعث ہیں، 80 فی صد سے زائد دودھ ان ہوٹلوں پر فروخت ہوتا ہے جو بے مقصد اور دودھ کی مہنگائی کا باعث اور قلت کا سامانا کرتا ہے۔
ہوٹلوں پر دودھ کی ڈیمانڈ نے انسانی زندگی سے مکھن، لسی، دہی گھی کا ذائقہ بھی چھین لیا، دودھ جو نسل کی بنیادی ضرورت ہے کہ رب جو پالنہار ہے وہ بچہ کی پیدائش سے پہلے ماں کے پستان میں دودھ پیدا کرتا ہے ڈاکٹروں نے مائوں سے دودھ چھڑا کر ڈبے کے دودھ کے حوالے دولت اور کمیشن خاطر کردیا تھا اور پروپیگنڈہ کے ذریعے ڈبے کے دودھ سے پروان چڑھی وہ نسل تیار ہوئی جو ماں کے لمس سے محروم رہی اور یوں فارمی طرز پر پروان چڑھی تو اولاد کا خام کردار ہر سو نظر آرہا ہے۔ اب کیمیکل کا دودھ بچے، بوڑھے، جوان، بیمار، حاملہ سب پی رہے ہیں اور فوڈ کنٹرولر اتھارٹی کا عملہ تنخواہوں کے ساتھ بھتہ میں کھل کھیل رہا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ڈبے کے اُس دودھ سے پروان چڑھا ہو جو دودھ کے رنگ کا سزاوار ہے اور دودھ کی بوباس کا حامل بھی نہیں۔
سندھ کی کہاوت دودھ اور پوت بیچنے کے لیے نہیں ہوتے تھے یوٹرن لیا تو دونوں چیزیں بکائو ہوگئیں اور نمائش بن گئیں دونوں افادیت کھوتی جارہی ہیں اب ماں کا یہ فرمانا کہ نافرمانی مت کر میں دودھ نہیں بخشوں گی کی بات بھی نہیں، اولاد کو اب دودھ بخشوانے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ کیمیکل دودھ کی جو نسل تیار ہورہی ہے وہ کیا قیامت ڈھائے گی اس سے پہلے تدارک کرلیا جائے۔ مردے کی لاش کو محفوظ کرنے والا یہ کیمیکل یوں بڑی مقدار میں تیار یا درآمد کیوں ہورہا ہے۔ اور مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر فروخت کیسے ہورہا ہے، حکومت وقت، محکمہ صحت اور دیگر روک تھام کے ادارے خاموش کیوں ہیں۔ کیا ان کی آنکھوں پر دولت کی پٹی ایسی بندھی ہے کہ وہ اپنی نسل کی قربانی دینے تک کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ یہ زہر آلودہ نسل زہر ہی اگلے گی۔ سوچ لیں۔