پچھلے دنوں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے سعودی عرب اور چین کا دورہ کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں ممالک وقت پر کام آنے والے ممالک ہیں اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ ممالک پہلے اپنے قومی مفادات کو دیکھتے ہیں اور پھر پاکستان کی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے ایسے فیصلے کرتے ہیں کہ جن سے بظاہر ایک تاثر تو یہی ملتا ہے کہ انہوں نے بروقت پاکستان کی مدد کی ہے اس دورے سے کچھ ماہ قبل جب پاکستان کی زر مبادلہ کی صورتحال بہت تشویشناک تھی سعودی عرب نے پاکستان کو تین سال کے لیے کئی ارب ڈالر کا قرض دیا جس سے پاکستان کو فوری طور پر کچھ ریلیف مل گیا۔ لیکن ایک ٹاک شو میں شیخ رشید بتارہے تھے کہ ہمیں یہ قرض 3فی صد سود پر ملا ہے اور دوسری ایک کڑی شرط یہ رکھی گئی ہے کہ جب بھی سعودی عرب اپنا یہ قرض واپس مانگے گا تو پاکستان کو 48گھنٹوں کے اندر یہ قرض واپس کرنا ہوگا، اس بات سے مجھے یاد آیا کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو اس وقت بھی ایسا ہی کوئی قرض تھا جو سعودی عرب نے واپس مانگا تو پاکستان نے چین سے قرض لے کر سعودی عرب کو واپس کیا چین نے کن شرائط پر یہ قرض دیا اس کی تفصیل میری نظر سے نہیں گزری۔ اب جو شہباز شریف نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے اس میں سب سے پہلی بات تو یہ ہوئی کہ پچھلی عمرانی حکومت کے کچھ فیصلوں اور رویوں کی وجہ سے سعودی عرب کچھ ناراض تھا تو اس پر وزیر اعظم نے سعودی حکمران سے معذرت کی۔
ناراضی کی جو وجوہات سامنے آئیں ان میں ایک بات تو یہ آرہی ہے کہ سعودی عرب کے شاہ سلمان نے عمران خان کو ایک گھڑی تحفے میں دی تھی، عمران خان نے اسے توشہ خانے سے خرید کر فروخت کردی۔ اسی لیے اب عمران خان کہیں سے گزرتے ہیں تو گھڑی چور کے نعرے لگتے ہیں۔ ہماری سمجھ میں بھی یہ بات نہیں آتی جس شخص نے برسوں قومی اسمبلی سے اپنی تنخواہ نہیں لی جس نے طلاق کے مسئلے پر لندن کی عدالت سے ملنے والے پیسوں کو لینے سے منع کردیا تھا جس پر مجسٹریٹ اپنی نشست سے کھڑا ہو گیا تھا اس فرد کی طبیعت میں یہ لالچ کیسے آگئی کہ اس نے تحفے میں ملنے والی گھڑی بیچ دی کہ آج ان کے خلاف ملک میں گھڑی چور کے بینرز لگ رہے ہیں، دوسری اہم بات یہ ہوئی کہ ملائیشیا میں ایک کانفرنس ہوئی جس کا ایک مقصد اور مقاصد کے درمیان یہ تھا مسلمان ممالک کا ایک نیا اتحاد تشکیل دیا جائے اور وجوہات میں اہم وجہ یہ سامنے آئی کہ بعض ممالک کو او آئی سی کے حوالے سے کچھ تحفظات تھے۔ اس تنظیم میں تمام عرب ممالک ہیں اور سعودی عرب کا اس پر اثر زیادہ ہے۔ جن دنوں میں ملائیشیا میں کسی نئی تنظیم کے خدو خال کے حوالے سے اجلاس تھا ان ہی دنوں میں سعودی عرب میں بھی کوئی اہم اجلاس تھا جس میں پاکستان کو بھی شرکت کرنا تھی، لیکن پاکستان نے ملائیشیا کی کانفرنس میں شرکت کی اور اس کا جواز یہ بتایا گیا کہ ملائیشیا کانفرنس کی دعوت پہلے سے آئی ہوئی تھی۔ عمران خان کے اس فیصلے سے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان ناراض ہو گئے اور میرے خیال سے یہی وہ دن تھے جب سعودی عرب نے تین دن میں اپنا قرض واپس کرنے کہ لیے کہا۔ لیکن دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ مسلمانوں کی اس تنظیم نے اسلامی ممالک کے دیرینہ مسائل کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں ٹھیک سے ادا نہیں کیں، کشمیر کے مسئلے پر اس تنظیم نے طویل عرصے سے خاموشی کی چادر اوڑھی ہوئی تھی پاکستان کے اس فیصلے (ملائیشیا کانفرنس میں شرکت) کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ قارئین کو یاد ہوگا کہ اس زمانے میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے او آئی سی کی طرف سے کشمیریوں کے حق میں کئی بیانات تواتر کے ساتھ آتے رہے۔
ہمارے ملک میں بعض حکمرانوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بین الاقوامی سطح پر مسلم امہ کے قائد کی حیثیت سے منوائیں، بھٹو نے جو اسلامی ممالک کی کانفرنس بلائی تھی اس کی پشت پر یہی جذبہ حاوی تھا ویسے تو اس کانفرنس کے بارے میں ملک کے سیاست دانوں کا یہ خیال تھا کہ بھٹو نے بنگلا دیش کو منظور کرنے کے لیے اسلامی کانفرنس کا انعقاد کیا ہے بھٹو کو یہ خطرہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دونوں طرف کے عوام اس سانحے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور پاکستان کی سابقہ حیثیت کسی کنفیڈریشن کے تحت ہی ہو جائے اور دوسرا خطرہ یہ تھا کہ کہیں شیخ مجیب یہ مطالبہ نہ کردے کہ ہم تو پورے پاکستان میں جیتے تھے اس لیے مغربی پاکستان کی حکومت بھی مجھے دی جائے، ان ہی خدشات کے پیش نظر یہ کانفرنس بلائی گئی تھی اور اس میں بھٹو نے بنگلا دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا، حالانکہ اس زمانے میں جماعت اسلامی نے بنگلا دیش نامنظور تحریک چلائی تھی، عام پاکستانی بھی بنگلا دیش کو منظور کرنے کے خلاف تھا۔ اس کانفرنس کی کامیابی کے بعد بھٹو کے ذہن میں تیسری دنیا لیڈر شپ کے حصول کا شوق ہوا چنانچہ اس زمانے میں تیسری دنیا کے مسائل و معاملات کے حوالے سے ریڈیو اور اخبارات میں بہت زیادہ کوریج مل رہی تھی بھٹو ہی نے سعودی عرب کے شاہ فیصل کو ان کے ملک میں پیدا ہونے والے پٹرول کو بین الاقوامی معیشت پر اثر انداز ہونے کا مشورہ دیا اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو ایک ذہین آدمی تھے شاہ فیصل نے اس مشورے پر عمل کیا اور ان کے ملک میں پیدا ہونے والا پٹرول پیٹرو ڈالر بن گیا امریکا کو اس پر بہت غصہ آیا اس نے دیکھا کہ بھٹو دنیا کہ غریب ممالک کا کوئی اتحاد یا فیڈریشن ٹائپ کی چیز بنانا چاہتا ہے جس کو تیسری دنیا کا نام دیا گیا ہے ایک دنیا ترقی یافتہ ممالک کی ہے اور ایک ترقی پزیر ممالک کی۔ اب یہ غریب ممالک کی تیسری دنیا کا کوئی اتحاد بنانا چاہتا ہے، یا دوسری بات یہ تھی کہ دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی ایک سرمایہ دار ممالک کا بلاک دوسرا کمیونسٹ ممالک کا بلاک، اب یہ کہیں اسلامی ممالک کا تیسرا بلاک نہ بنا لے اور اسی وجہ سے اسلامی ممالک کی کانفرنس بلائی گئی ہے۔ بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کے ایٹم بنانے کے ارادے پر یہ دھمکی دی تھی تمہیں عبرت کی مثال بنا دیں گے ہو سکتا ہے یہ بات بھی ہو لیکن امریکا کو اسلامی کانفرنس کے بعد یہ خطرہ تھا کہیں بھٹو اسلامی ممالک کا کوئی اتحاد نہ بنالیں اس لیے اس کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔
جنرل ضیاء بھی عالمی برادری میں اپنے آپ کو اہم لیڈر کے طور پر متعارف کرانا چاہتے تھے چنانچہ روس کی افغانستان سے واپسی کے بعد ان کے حامیوں نے یہ نعرے بلند کیے کہ تم نے ڈھاکا دیا ہم نے کابل لیا اب کشمیر لے کر دکھائیں گے، جنیوا معاہدے میں جنرل ضیاء کو شدید تحفظات تھے اسی لیے انہوں نے جونیجو کی حکومت ختم کردی بعد میں ایک بین الاقوامی سازش کے تحت ان ہی کو ختم کردیا گیا۔ نواز شریف کو بھی بین الاقوامی لیڈر بننے کا شوق تھا ایٹمی دھماکا کرکے وہ عالم اسلام کی آنکھوں کا تارا بن گئے، جس وقت پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا تھا اس وقت سعودی عرب میں اس وقت کے شہنشاہ کی قیادت میں کوئی اہم اجلاس ہورہا تھا اس اجلاس میں جب یہ خبر پہنچی تو تمام شرکا کے چہرے کھل اٹھے پھر پاکستان پر جو معاشی پابندیاں لگیں سعودی عرب نے اس موقع پر پاکستان کی بہت مدد کی۔ پرویز مشرف شروع میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کررہے تھے پھر ان کی بھی قسمت جاگی نائن الیون کا واقعہ ہو گیا امریکا کی شرائط کے سامنے وہ لیٹ گئے، پھر کیا تھا پرویز مشرف تمام مغربی اور یورپی ممالک کے ہیرو بن گئے۔ عمران خان کو بھی یہ شوق چرایا تھا ویسے تو ان کی ایک بین الاقوامی حیثیت پہلے سے تو تھی لیکن سیاست کی دنیا میں وہ absolutely not کہہ کر ہیرو بننا چاہتے تھے ملائیشیا و ترکی کانفرنس میں بھی یہی نیت نظر آرہی تھی۔
ایٹمی دھماکے کے حوالے سے سعودی عرب کی شاہ فیملی پاکستان کی شریف فیملی سے ایک خاص انسیت رکھتی ہے اس لیے وزیر اعظم شہباز شریف نے پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا تھا اس وقت بھی سعودی عرب کی طرف سے بروقت تعاون کی وجہ سے پاکستان کو کچھ ریلیکس مل گیا تھا اب جو حال ہی میں شہباز شریف نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے تو اس میں کچھ نتیجہ خیز بات چیت ہوئی ہے اب جو 21نومبر کو شاہ محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں اس میں پاکستان کو 4.2ارب ڈالر کے اضافی بیل آئوٹ پیکیج ملنے کا امکان ہے اور پھر ایک آئل ریفائنری کے قیام کا معاہدہ بھی متوقع ہے۔ گوادر میں 10ارب ڈالر کی لاگت سے جدید آئل ریفائنری کے قیام کی سعودی عرب چین کے ساتھ مل کر مدد کرے گا، تاہم موجودہ غیر یقینی صورتحال میں مزید خرابی دورے میں رکاوٹ پیدا کرسکتی ہے۔