طالبان بھارت کے تعلقات کا سبق

862

بی بی سی پشتو نے ایک رپورٹ میں کہا کہ طالبان حکومت نے بھارت سے تجارت میں اضافے کے لیے ہوئی راہداری کو دوبارہ کھول دیا ہے۔ اس راستے سے افغانستان سے بھیجا جانے والے سامان بھارت پہنچنے لگا ہے۔ طالبان کی وزارت صنعت وتجارت کے ترجمان عبدالسلام جواد کے مطابق ان کی حکومت ایک معاہدے کے تحت انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ بھارت کے ساتھ ہمارا کاروبار فضائی راہداری کے ذریعے جاری رہے گا۔ افغانستان اور بھارت کے درمیان تجارتی راہداری کا یہ معاہدہ حامد کرزئی کے دور میں ہوا تھا۔ طالبان حکومت کے وزیر تجارت کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ وسیع معاہدے کرنا ہے۔ اسی دوران افغانستان کے وزیر خارجہ شیر محمد ستانکزئی نے بھارتی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات کو قائم رکھے۔
افغانستان اور بھارت کے درمیان آسان زمینی تجارتی راہدای پاکستان کے راستے ہی ممکن ہے مگر پاکستان بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باعث دونوں ملکوں کو یہ سہولت فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔ ماضی میں افغانستان کی حکومتیں جواب میں پاکستان کی وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی میں رکاوٹیں کھڑی کرتی رہی ہیں۔ طالبان اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور ان میں مزید بہتری کی خواہش میں پاکستان جیسے ملکوں کے لیے ایک سبق پنہاں ہے۔ وہ یہ ہے کہ آزاد روش اور آزاد منش قوموں کو دنیا کی کوئی طاقت ترقی کے سفر سے روک نہیں سکتی۔ اس میں ایک سبق یہ بھی ہے کہ قوموں کی قیادت کی ترجیح اول زمینی دیوتائوں کی ماتھے پر اُبھرنے والی شکنوں کا طول وعرض اور گہرائی ماپنے اور اس پر نظر رکھنے کے بجائے اپنی قوم کے مفاد اور اپنی متعین کردہ راہ پر نگاہ مرکوز رکھنی چاہیے۔
جب سے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان سیاسی بحران کا شکار ہوا ہے اس وقت سے ایک ملیشیا کے کنٹرول میں چلنے والے سیاسی طور پر منقسم اور بین الاقوامی طور پر معتوب ملک نے روس اور ایران کے ساتھ کئی بڑے تجارتی معاہدات کیے ہیں۔ روس اور ایران اس وقت خود طالبان رجیم کی طرح عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ناپسندیدہ اور معتوب ہیں۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ طالبان کے گزشتہ دور میں بھارت اور افغانستان تلخیاں عروج پر تھیں۔ بھارت کھلے بندوں طالبان کے خلاف محو ِجنگ شمالی اتحاد کا سرپرست تھا جبکہ طالبان پر پاکستان کی چھاپ نمایاں تھی۔ اس تلخ ماضی کو دیکھتے ہوئے اس بات کا امکان تھا کہ طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالتے ہی دونوں ملک کے پرانے زخم ہرے ہوجائیں گے اور یوں ان میں کشیدگی بڑھ جائے گی۔ خود بھارت کا میڈیا بھی پہلے پہل اسی خوف اور خدشے کا اظہار کر رہا تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ طالبان کے کابل میں داخل ہوتے ہی کشمیر کے حالات میں کشیدگی تیز ہوگی مگر طالبان نے اپنے قول وفعل سے بھارت کا اعتماد بحال کیا۔ انہوں نے اپنے اوپر سے پاکستان کی پراکسی ہونے کا لیبل اُتارنے کے لیے بھارت کو مسلسل مثبت پیغامات بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
طالبان نے اسلام آباد کے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کی جبینوں کی شکنیں گننے کے بجائے ایک عام افغان کی خواہشات اور مفادات کا خیال رکھ کر بھارت کے ساتھ تجارت کو وسعت دینے کا راستہ اپنایا۔ طالبان نے بھارت کے ساتھ اپنی حکومت کا تلخ ماضی یاد رکھنے کے بجائے کابل اور دہلی کے روایتی اور دیرینہ دوستانہ تعلقات کو یاد رکھنے پر اصرار کیا اور یہ فیصلہ اپنے عوام کی اقتصادیات کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا۔ بھارت نے بھی بین الاقوامی پابندیوں کا شکار ایک ملیشیا کی حکومت کے ساتھ اپنے ملک اور عوام کے مفاد میں معاہدات بحال رکھ کرکسی بیرونی دبائو اور ناراضی کی پروا نہیں کی۔ بھارتیوں نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو کسی تیسرے ملک کی عینک سے دیکھنے کے بجائے دوطرفہ تعلقات اور مفادات کی عینک سے دیکھنے کا راستہ اپنایا۔ جن طالبان کو وہ دہشت گرد قرار دیتے نہیں تھکتے تھے اب انہی سے تجارتی معاہدات کررہے ہیں اور اس معاملے کو وہ کسی بیرونی زاویے سے دیکھنے کے بجائے اپنے مفاد کی عینک سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کا حال یہ ہے کہ وہ ایران کے ساتھ تجارت نہیں کر سکتا، گیس اور تیل کے بڑے معاہدات کرنے سے قاصر ہے۔ روس سے گندم اور ایندھن خریدنے کی آزادی کا حق دار نہیں۔ چین کے ساتھ تعلقات کو ایک حد سے آگے بڑھانے کی سکت نہیں رکھتا۔ طالبان سے راہ ورسم میں ایک حد تک آزاد ہے اور تو اور اپنے پوشیدہ معدنی وسائل نکالنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ یہ آزاد روش اختیار نہ کرنے کا فطری انجام ہے۔ پاکستان کو ان حالات سے سبق سیکھ کر اپنے لیے مستقبل کی راہ عمل متعین کرنا ہوگی۔