سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی نَوَّرَاللّٰہُ مَرْقَدَھُم

563

شمالی فارس میں بُحَیْرَۂ کیسپین کے جنوبی ساحل پرگیلان نامی قصبے میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ اپنے والدِکریم ابوصالح موسیٰ جنگی دوست کی طرف سے حَسَنی اور والدۂ ماجدہ اُمُّ الخیر اَمَۃُ الجبار فاطمہ بنت سید عبداللہ صومعی کی طرف سے حسینی، یعنی نَجِیْبُ الطَّرَفین سید ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ روایتی انداز سے ہٹ کر ایک مُصلحِ اعظم کی حیثیت سے آپ کی عظیم شخصیت کا تعارف آپ کے شِعار زندگی اور تعلیمات کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ تقریباً اٹھارہ سال کی عمر میں آ پ کی والدۂ ماجدہ نے حصولِ علم کے لیے آپ کو خود سے جدا کیا، طویل اور صبر آزما سفر کر کے آپ اُس عہد کے عظیم علمی مرکز بغداد تشریف لے گئے۔ آپ نے اپنے شیخ ابوسعید مُخَرِّمی کے مدرسے میں تمام دینی علوم کی تکمیل کی اور پھر اُسی مرکزِ علمی میں اپنے شیخ کے جانشین مقرر ہوئے۔ تقریباً تینتیس سال آپ نے حصولِ علم، درس وتدریس اور افتاء میں صَرف کیے۔ آپ نے خود اپنے معروف قصیدے میں بتایا کہ رفعتوں کی منزل کا پہلا زینہ علم ہے، آپ فرماتے ہیں: ’’میں نے علم حاصل کیا یہاں تک کہ میں قطبیت کے مرتبے پر فائز ہوا، میں نے استاذ الاساتذہ اور شیخ کامل کے حضور حاضر ہوکر سعادت کی منزلوں کو پایا۔ صائم الدہر اور قائم اللیل ہونے کی وجہ سے ان مردانِ باکمال کے چہرے موتیوں کی طرح چمکتے تھے۔ ہر ولی کسی نہ کسی مُقتدا کے نقشِ قدم پر گامزن رہتا ہے اور میں بَدرُ الکمال یعنی سید المرسلینؐ کے نقشِ قدم پر ہوں‘‘۔ معلوم ہوا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی نوَّرَ اللہ مَرقَدَھُم کے نزدیک دینی رفعتوں کے سارے راستے علم اور مردانِ باکمال کی صحبت سے ہوتے ہوئے گزرتے ہیں اور وہ پوری زندگی رسول اللہؐ کی سیرت کے نقوشِ قدم پر گامزن رہے۔ اِسی شعار نے انہیں امام الاولیاء، قُدوَۃُ الاَصفیاء، محبوبِ سبحانی اورغوث صمدانی بنادیا۔ آپ نبی کریمؐ کے خُلُقِ عظیم کا مظہر تھے، آپ کی کرامات بے شمار ہیں جو آپ کی سوانح کی کتابوں میں مذکور اور زبانِ زد عام ہیں، ہمارے واعظین کے خطابات کا مرکزی موضوع بھی یہی کرامات ہیں، کیونکہ ان کے بیان کے ساتھ ان کا روزگار وابستہ ہے، جس طرح معجزہ نبی کی پہچان ہوتا ہے، اِسی طرح ایک لحاظ سے کرامت ولی کی پہچان ہے، لیکن عزیمت واستقامت کی جن منزلوں سے گزر کر ولی صاحبِ کرامت بنتا ہے، وہی ہمارے لیے رول ماڈل اور نمونۂ عمل ہیں۔
شیخ حَرادہ فرماتے ہیں: ’’میری آنکھوں نے آپ سے بڑھ کر کوئی خوش اخلاق، اُولوالعزم، کریم النفس، رقیقُ القلب اور محبت وتعلقات کا پاس رکھنے والا نہیں دیکھا۔ آپ جلیل القدر، عالی مرتبت اور وسیع العلم ہونے کے باوجود اپنے چھوٹوں پر شفقت اور بزرگوں کی توقیر فرماتے، ہر ایک سے سلام میں پہل کرتے، معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگوں کو اپنی ہم نشینی کا شرف بخشتے اور فقراء کے ساتھ تواضع اور انکسار سے پیش آتے۔ آپ نہ کسی صاحب جاہ ومنصب کی تعظیم کے لیے قیام فرماتے اور نہ کسی وزیر اور بادشاہ کے آستانے پر حاضری دیتے‘‘، امام ابو عبداللہ محمد بن یوسف البرزالی لکھتے ہیں:
’’آپ مستجاب الدعوات تھے، ہمیشہ اللہ کے ذکر وفکر میں مشغول رہتے اور کثرتِ ذکر سے آپ کی آنکھیں اشک بار ہوجاتیں۔ آپ انتہائی رقیق القلب، شگفتہ رو، کریم النفس، فراخ دست، ذی علم، بَلند اخلاق اور عالی نسب تھے۔ عبادات اور مجاہدے میں آپ سب سے رفیع الشان تھے اور آپ کا نورانی چہرہ ہمیشہ بشّاش اور تبسُّم آمیز نظر آتا‘‘، اُس عہد کے مفتی عراق محمد بن حامد البغدادی لکھتے ہیں:
’’آپ فحش باتوں سے کوسوں دور تھے، اپنی ذات کے معاملے میں نہ آپ کو کبھی کسی پر غصہ آیا اور نہ آپ نے کسی سے انتقام لیا، البتہ اگر کسی نے ایسا کام کیا ہو جو اللہ تعالیٰ کے غضب کا باعث ہو، تو آپ غضب ناک ہوجاتے‘‘۔ آپ اللہ تعالیٰ کی توحید کے حوالے سے کسی رُو رعایت کے قائل نہ تھے۔ ہر قسم کا شرک، خواہ شرک ِ اکبر ہو یا شرک ِ اصغر (ریا کاری)، اس کی مذمت فرماتے، ایک مثال سے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’کل مخلوقات کو اس طرح سمجھو کہ بادشاہ نے، جس کا ملک بہت بڑا، حکم نہایت سخت اور رعب وجلال دل ہلادینے والا ہے، ایک شخص کو گرفتار کر کے، گلے میں طوق اور پیروں میں بیڑیاں ڈال کرصنوبر کے درخت پر ایک ایسے دریا کے کنارے لٹکا دیا ہے، جو نہایت گہرا ہے، اُس کی موجیں زورآور، پاٹ بہت وسیع اور بہائو انتہائی زور دار ہے۔ وہ خود بلند مَسند پر پورے جلال کے ساتھ بیٹھا ہے، اُس تک رسائی نہایت مشکل ہے، اُس کے پہلو میں تیرو پیکان، نیزہ وکمان اور ہر طرح کے اسلحے کا انبار ہے، جس کی مقدار خود بادشاہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ وہ جو ہتھیار چاہے، اُس لٹکے ہوئے قیدی پر چلا دیتا ہے۔ تو کیا یہ منظر دیکھنے والا جسارت کرسکتا ہے کہ اپنی توجہ اُس ذی جلال بادشاہ سے ہٹا دے، اُس بادشاہ سے خوف ورجا کو ترک کر کے اُس لٹکے ہوئے قیدی سے امید باندھ لے۔پس جو شخص ایسا کرے گا، وہ اہل ِ دانش کے نزدیک نادان، حقیقت کے ادراک سے عاری، دیوانہ، چوپائے کی طرح تفکّر وتعقُّل سے محروم اور مرتبۂ انسانیت سے خارج ہے۔ اللہ کی پناہ! یہ تو بینائی کے بعد اندھا پن، وصال کے بعد فراق، ارتقاء وارتفاع کے بعد تنزّل اور ہدایت کے بعد گمراہی اور ایمان کے بعد کفر کی طرح ہے‘‘۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ دنیا کو اپنا مطلوب اور محبوب بنانے کی نفی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس جہانِ فانی کے ساتھ مومن کا تعلق صرف بقدر حاجت ہونا چاہیے: ’’دولت ِ دنیا ہاتھ اور جیب میں رکھنی جائز، کسی اچھی نیت سے اس کو جمع کرنا بھی جائز، مگر خبردار! اُسے اپنے قلب پر اس طرح مسلّط کرنا کہ اُس کی محبت دل پر حاوی ہوجائے، ہرگز جائز نہیں ہے۔ اُسے درِ دل پر کھڑا کرنا جائز مگر خانۂ دل میں بسانا اور سجانا ناجائز ہے اور اس میں تیرے لیے کوئی عزت نہیں ہے‘‘۔
دنیاوی عشرتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھنے والے دنیا پرستوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بے شک دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے، لیکن تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو‘‘۔ مزید فرماتے ہیں: ’’دنیا میں سے اپنا حصہ اس طرح مت لو کہ وہ بے نیاز بن کر بیٹھی ہے اور تم اُس کے سامنے نیاز مند بن کر کھڑے ہو، بلکہ اُس کو اس طرح برتو کہ وہ ایک بادشاہ کے دروازے پہ اپنے سر پر طباق لیے کھڑی ہے اور وہ اُس سے بے نیاز ہے۔ دنیا اُس کی خدمت گزار ہوتی ہے جو حق تبارک وتعالیٰ کے در پر عاجز بن کر کھڑا رہے، لیکن جو دنیا کے دروازے پر اُس کا طلب گار بن کر کھڑا ہوجائے، وہ اُس کو ذلیل وخوار کردیتی ہے۔ دنیا سے بے نیاز رہ کر اور اللہ کا نیاز مند بن کراسے برتو‘‘۔ انسان پرجن چیزوں کی محبت پرستش کی حد تک غالب آجاتی ہے، ان کی بابت فرماتے ہیں:
’’آج تو اعتماد کر رہا ہے اپنے نفس پر، مخلوق پر، اپنی دولت و تجارت اور اپنے شہر کے حاکم پر، الغرض ہروہ چیز جس سے تو آس لگا کر بیٹھے، ہر وہ شخص جس سے تو خوف ورجا کا تعلق قائم کرے اور ہر وہ ذات جسے تو اپنے نفع ونقصان کا مالک سمجھے، وہ تیرا معبود ہے۔ اگر تجھے یقین ہے کہ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے اِذن واختیار اور حُکم سے ملتی ہیں تو پھر اللہ تیرا معبود ہے اور تو اللہ کا حقیقی بندہ ہے‘‘۔
جناب جبائی راوی ہیں: دنیا سے بے رغبتی کی بابت آپ نے فرمایا: ’’میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی ریاضت ومجاہدے کے زمانے کی طرح صحرائوں اور جنگلوں میں رہوں، نہ مخلوق مجھے دیکھے اور نہ میں اُس کو دیکھوں۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا نفع منظور ہے، اس لیے مجھے بندوں کے درمیان رہنے کا حکم ہے۔ میرے ہاتھ پر پانچ ہزار سے زائد یہودی اور مسیحی مسلمان ہوچکے ہیں، ایک لاکھ سے زائد مجرم اور سرکش تائب ہوکر اللہ کی بندگی اختیار کرچکے ہیں، پس یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے‘‘۔
سیّد المرسلین امام الانبیاءؐ بذات ِ خود سراپا معجزہ تھے، معراج النبیؐ سمیت آپ کے معجزات بے شمار ہیں۔ لیکن آپ کا عظیم معجزہ صحابۂ کرام کی صورت میں آپ کی تیار کی ہوئی رِجالِ کار کی وہ جماعت اور افرادی قوت تھی، جنہوں نے آگے چل کر اسلام کو دنیا کی وحدانی سپر پاور بنادیا اور اُس عہد کی دو سپر پاورز قیصر وکسریٰ اُن کے قدموں میں سرنگوں ہوگئیں اور امت پر ان کا احسان ہے کہ انہوں نے دین کو اپنی اصل صورت میں بعد والوں تک پہنچایا۔
بلاشبہ غوثُ الاعظمؒ کی کرامات بے شمار ہیں، لیکن ان رِجالِ کار پر مشتمل انسانی اثاثہ آپ کی بہت بڑی کرامت ہے۔ آپ کی علمی وروحانی جلالت کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے سلاطین ِ وقت قیمتی تحائف لے کر آتے تو آپ انہیں جھنجوڑتے ہوئے فرماتے:
’’تم اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال اور اقتدار پر قابض ہوکر ظالم اور خائن بنے ہوئے ہو، اے اللہ! ان منافقوں کو توبہ کی توفیق اور ہدایت نصیب فرمایا ان کی شوکت کو توڑ کر انہیں رسواکردے۔ اے اللہ! ان ظالموں کی اصلاح فرما یا ان کا قَلع قَمع کردے ‘‘۔ وہ اپنے صاحبزادے سید عبدالوہاب کو وصیت فرماتے ہیں:
’’ہمیشہ خدا سے ڈرتے رہو اورخدا کے سوا کسی کے خوف کو دل میں جگہ نہ دو۔ اپنے نفس کی مرغوبات اور ضروریات کو اللہ کے سپرد کردو، اُس کے سوا کسی سے آس نہ لگائو، صرف اُسی پر بھروسا کرو، سب کچھ اُسی سے مانگو، اللہ کے سوا کسی پر تکیہ نہ کرو، کیونکہ یہی دین کی اساس ہے، جو دل کا تعلق خالق کے ساتھ قائم کرلے، مخلوق اُس کے تابع ہوجاتی ہے‘‘۔