اللہ کے غیظ و غضب سے ڈریں

838

مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ آج کل پاکستان کی قسمت کن ہاتھوں میں ہے۔ مجھے اس سے بھی غرض نہیں کہ یہاں کون چور ہے اور کون شریف۔ مجھے اس سے بھی غرض نہیں کہ ہر مسند ِ اقتدار پر براجمان ہونے والا اپنی کوششوں سے کرسی اقتدار تک پہنچا ہے یا کٹھ پتلی بنا کر بٹھا دیا گیا ہے، نہ ہی اس سے کچھ غرض ہے کہ سیاسی تحریکوں میں کیا کیا گل کھلائے جاتے رہے ہیں اور پاکستان کے عوام کو کس کس انداز میں دھوکا دیا جاتا رہا ہے۔ مجھے غرض ہے تو صرف اس سے کہ آج سے 75 برس پہلے جن مقاصد کے لیے 20 لاکھ انسانوں نے اپنی جانیں جانِ آفرین کے سپرد کی تھیں، کیا وہ مقصد 75 برس گزرجانے کے بعد بھی حاصل ہو سکا ہے۔پاکستان جس واحد مقصد کے لیے معرضِ وجود میں آیا تھا وہ کوئی ایسی بات نہیں جس کو دہرانہ محض اس لیے ضروری ہو کہ شاید ہم میں سے اس بات کا علم کسی کو نہ ہو۔ اللہ گواہ ہے کہ ہر وہ بچہ جس کو پیدا ہو کر بولنا آگیا ہو، اس سے بھی اگر یہ پوچھا جائے کہ پاکستان کن مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا تو وہ بھی اللہ کے فضل و کرم سے یہی جواب دیتا نظر آئے گا کہ اسے اللہ تعالیٰ کے دین کے نفاذ کی خاطر بنایا گیا تھا۔
ایک ایسا ملک جس کا بچہ بچہ پاکستان کا مقصد کیا لا الہٰ الا اللہ کہتا نظر آئے، کتنے تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ اس ملک کی ایک انچ زمین پر بھی کہیں اللہ تعالیٰ کا نظام رائج نہیں بلکہ پورا ملک اب تک ان ہی اقوام کی پیروی میں لگا ہوا ہے جن کے خونیں پنجوں اور خوفناک جبڑوں سے کھینچ کر پاکستان کو نکالا گیا تھا۔ اس ملک میں ایک دو نہیں، درجنوں تحریکیں اللہ تعالیٰ کے نام پر چلائی گئیں، اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ چلانے والوں کی اکثریت مفاد پرست اور دھوکے باز ہے، لوگ محض اس لیے ان کے پیچھے ہو لیے کہ جب اللہ کا نام بیچ میں آجائے تو بے شک کوئی جھوٹ ہی کہہ رہا ہو، اس کے پیچھے پیچھے ہو لینا پاکستانی اپنا دینی فریضہ سمجھ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر قسم کی حکومتیں آتی اور جاتی رہیں، آدھا کلمہ پڑھنے والی بھی آئے۔ بسم اللہ، الحمدللہ، ماشا اللہ اور اللہ کا فضل و کرم کی تکرار کرنے والے بھی آئے اور ایسے بھی آئے جن کا بس نہیں چلتا تھا کہ الف لام میم سے شروع کرکے والناس تک پورا پورا قرآن ختم کر جائیں لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ ایسے تمام حکمران دنیا کے سب سے بڑے چال باز اور نوسرباز تھے اور اسلام کے بجائے الحاد کو فروغ دے کر کچھ تو دنیا سے رخصت ہو گئے اور کچھ زندہ تو ہیں لیکن بے بسی اور عبرت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ یہ سارے تماشے اسی پاکستان میں ہوتے رہے جس کو محض اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں انسانوں کا بنایا ہوا کسی قسم کا کوئی آئین یا قانون نہیں چلے گا، اگر چلے گا تو اس اللہ کا نظام چلے کا جس نے تمام انسانوں، جنوں، کائنات اور کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا۔
بے شک پاکستان میں ہر قسم کا کافرانہ اور ظالمانہ کھیل کھیلا جاتا رہا لیکن گزشتہ پانچ برسوں سے جس انداز میں چھپے اور کھلے، اسلام کا مذاق بنایا جا رہا ہے وہ نہایت ناقابل ِ برداشت بات ہے۔ باتیں اور وہ بھی اتنی بڑی بڑی جن کا عشرہ عشیر بھی پاکستان کے کسی مسلمان نے برداشت نہیں کیں۔ کیا لوگ سلمان تاثیر کو بھول گئے۔ کیا اس نوجوان کو بھول گئے جس نے تھانے کے اندر ہی ایک پولیس آفیسر سے اسی کی پستول چھین کر اسے واصل ِ جہنم کیا اور کیا اس بات کو بھلایا جا سکتا ہے ملالہ کو اور آسیہ ملعونہ کو یہ ملک چھوڑ کر کیوں دیارِ غیر میں جانا پڑا۔
کوئی کہتا ہے کہ ’’اللہ کے بعد عمران نیازی ہے‘‘، پورا پاکستان خاموش، کوئی کہتا ہے کہ ’’اگر نیازی حکم کرے تو میں اپنے سگے بیٹے کو ذبح کر دوں گا‘‘، پاکستان خاموش، کوئی کہتا ہے کہ ’’مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے‘‘، پاکستان خاموش۔ اور کوئی کہتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کر کے آیا ہوں‘‘، پاکستان خاموش۔ کہاں ذرا ذرا سی مبہم باتوں پر قتل اور کہاں خدائی کے دعووں پر خاموشی؟۔
ایک جانب ریاست ِ مدینہ بنانے کا وعدہ و دعویٰ اور دوسری جانب کھلے عام خواتین کی بیہودہ اچھل کود۔ کہاں اسلام اور کہاں حور و شمائل کی برہنگی۔ یہ انتہا بھی دیکھی گئی کہ خواتین زیریں لباس بنا جالی دار لباس میں اپنی زینتوں کی نمائش کرتی نظر آئیں اور بعض مقامات پر اپنے آپ کو پورا پورا برہنہ تک کر لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ موجودہ لانگ مارچ میں جو کنٹینر استعمال کیا جا رہا ہے اس پر نہایت جلی انداز میں ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ لکھا ہوا ہے اور اس کے چاروں جانب خواتین کی خلاف اسلام اچھل کود کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ سب بیہودگی اس بات کی غماز ہے کہ ہم جس طرح بھی چاہیں، اسلام کو دنیا میں ایک مذاق بنا کر رکھ دیں، کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہی اگر ’’امر بالمعروف‘‘ ہے تو ظالموں پھر کفر کیا ہوگا۔ تحریکیں چلاؤ، جلسے کرو، جلوس نکالو، دس دس حلقوں سے انتخاب لڑو یا جو کچھ کر گزرنا چاہتے ہو کر گزرو لیکن اسلام کو مذاق تو نہ بناؤ، ریاست مدینہ کا نام تو نہ لو، آیات لکھ کر اسی کے ارد گرد خواتین کی بے ہنگم اچھل کود کے مظاہرے تو نہ کرو۔ میں دیگر مظاہرین سے بھی عرض کروں گا کہ جو مرضی کرنا ہے کریں لیکن خدا کے واسطے یہ ظلم نہ کریں کہ قرآن کی واضح آیات کے سامنے رکھ کر رقص و سرود کی محفلیں سجائیں۔ اللہ کے واسطے اللہ کے غیظ و غضب کو دعوت نہ دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ زمین پھٹ پڑے یا آسمان ٹوٹ کر ہم سب پر گر پڑے۔