پاکستان کا اقتصادی بحران اور چین کا وعدہ

446

وزیراعظم میاں شہباز شریف چین کے دو روزہ دورے کے بعد پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ دورے کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق چین کی قیادت نے وعدہ کیا ہے کہ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مدد کی جائے گی۔ دورئہ چین کی تفصیلات اور مشترکہ اعلامیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ روایتی اور رسمی گرم جوشی تو موجود تھی، لیکن پاکستان جس اقتصادی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اس سے نکلنے کے لیے کیا کیا منصوبے زیر غور ہیں، اس دورے کے بعد صرف ایک اعلان سامنے آیا ہے جس کے مطابق چین پاکستان میں سیلاب کے متاثرین کی مدد کے لیے 60 کروڑ یوان اضافی ادا کرے گا باقی مشترکہ اعلامیے میں تمام روایتی نکات دہرائے گئے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت ایم ایل ون اور کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ شروع کیا جائے گا۔ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کو وسعت دینے، کثیر جہتی تعاون بڑھانے اور تزویراتی شراکت داری مزید مضبوط کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات اس وقت سے ہیں جب دنیا کی بڑی طاقتوں اور اہم ممالک نے انقلاب کے بعد مائو کی قیادت میں قائم ہونے والی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ چین ایک بڑے جغرافیے اور کثیر آبادی کا ملک تھا چین کی انقلابی قیادت نے 40 سال میں چین کو اقتصادی ترقی یافتہ ملک بنادیا اور اپنے کروڑوں باشندوں کو غربت سے نکال لیا ہے۔ اب چین ایک عالمی طاقت ہے۔ جن ملکوں سے چین کی زمینی سرحدیں ملتی ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اقتصادی طاقت بننے کے بعد عالمی تجارت و صنعت میں اپنا حصہ بڑھانے کے لیے چین کی موجودہ قیادت نے بری اور بحری اقتصادی شاہراہ قائم کرنے اور دور دراز ممالک کے درمیان تجارتی راہداری قائم کرنے کے لیے بی آر آئی کے نام سے منصوبہ شروع کیا ہے جس کی مخالفت کا اعلان امریکا نے کھل کرکیا ہوا ہے۔ سی پیک اسی بی آر آئی منصوبے کا حصہ خنجراب کی سرحد کو گوادر کے ساحل تک جوڑ دے گا اس منصوبے کے تحت توانائی اور دیگر اقتصادی منصوبے بھی شامل ہیں۔ یہ منصوبہ چین کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے چین اور پاکستان کی تزویراتی شراکت داری بھی خطے اور عالمی سیاست میں اہم کردار رکھتی ہے۔ لیکن ان تمام امکانات سے پاکستان اور اس کے باشندے کیا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اور ان کو حاصل کرنے کے لیے کیا تیاری کی گئی ہے۔ یہ ایک اہم سوال ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان تزویراتی تعلقات پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ بدلتے عالمی حالات میں ان تعلقات کی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وجہ سے سابق اور موجودہ حکومتوں کے ادوار میں سی پیک کے منصوبوں میں ’’تاخیر اور سستی‘‘ کے شکوک کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کے دو سابق سیکرٹری خارجہ اس بات کی گواہی دے چکے ہیں کہ تجارتی اور صنعتی معاہدوں کے موقعے پر پاکستان کی جانب سے تیاری اور ہوم ورک کبھی نہیں ہوا۔ گویا تزویراتی مذاکرات کرنے والے ذمے داران اقتصادی مذاکرات کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ویسے بھی چینیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تجارتی مذاکرات میں بہت سخت جان نظر آتے ہیں یعنی چین کے مذاکرات کار اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ وہ پوری دنیا اور بڑی طاقتوں کا ہر میدان میں مقابلہ کررہے ہیں۔ انہیں ہر دنیا دار طاقت کی طرح صرف اپنے قومی مفادات سے دلچسپی ہے۔ کیا ہماری حکمران اشرافیہ پیچیدہ عالمی صورتِ حال میں اپنا کردار درست انداز میں ادا کررہی ہے۔ عالمی منظرنامہ یہ ہے کہ روس کے ایک سینیٹر نے پریس کانفرنس کرکے پاکستان کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ یوکرین کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں میں تعاون کررہا ہے۔ اس الزام کے بعد پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے باقاعدہ احتجاج کیا ہے۔ یہ منظرنامہ اس بات کی خبر دے رہا ہے کہ حکومت پاکستان بین الاقوامی تعلقات کی پیچیدگیوں میں اپنا کردار درست انداز میں انجام نہیں دے رہی۔ دنیا کی دیگر طاقتوں کو شبہ ہے کہ جب نازک وقت آتا ہے پاکستان کی طاقتور حکمران ’’اشرافیہ‘‘ امریکا کے قدموں میں جھک جاتی ہے ’’سیٹو اور سینٹو‘‘ سے لے کر وار آن ٹیرر تک یہی تاریخ ہے۔ یہ بھی تاریخ ہے کہ جب ہمارے فوجی اور مجاہدین سری نگر تک پہنچنے کی منصوبہ بندی مکمل کرچکے تھے تب امریکا کے حکم اور لالچ پر واپس بلالیے گئے، جس کے بعد سے کشمیر کا مسئلہ آج تک معلق ہے۔ وزیراعظم پاکستان کا موجودہ دورہ بھی شکوک و شبہات کی فضا میں مکمل ہوا ہے۔