ـ60 سال پہلے کا لاہور، اب لاہور وہ نہیں رہا(دوسرا حصہ)

646

ملک نصراللہ خان عزیز نہایت باکمال اخبار نویس، شاعر اور کالم نگار تھے، ان کی زبان دانی کے لیے یہی ثبوت کافی ہے کہ وہ پنجاب سے جا کر یوپی کے مشہور شہر بجنور میں سہ روزہ اخبار ’’مدینہ‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ یہ برصغیر کی تقسیم سے بہت پہلے کی بات ہے۔ بعد میں سید مودودی نے بھی ’’مدینہ‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ پاکستان بنا تو جماعت اسلامی کے زیر اثر شائع ہونے والے تمام اخبارات و جرائد کے ایڈیٹر ملک صاحب ہی رہے۔ مشہورِ زمانہ ادبی رسالہ ’’نیرنگ خیال‘‘ کے مالک و مدیر حکیم یوسف حسن مشاہیر علم و ادب کے خطاب دینے میں بڑے طاق تھے، ان کا دیا ہوا خطاب آناً فاناً پورے برصغیر میں مشہور ہوجاتا تھا۔ مثلاً انہوں نے مولوی عبدالحق کو بابائے اردو کا خطاب دیا تھا، آج بھی لوگ انہیں اسی حوالے سے جانتے ہیں۔ مولانا ظفر علی خان کو بابائے صحافت بنانے والے بھی حکیم صاحب ہی تھے۔ انہیں دنیا سے رخصت ہوئے مدت ہوگئی لیکن وہ آج بھی بابائے صحافت ہی ہیں، کوئی اور ان کی جگہ نہیں لے سکا۔ ملک نصر اللہ خان عزیز کو حکیم صاحب نے مدیر اعلیٰ کا خطاب دیا تھا، وہ واقعی مدیر اعلیٰ تھے۔ مدینہ میں سرکار انگلشیہ کے خلاف اداریہ لکھا تو دھر لیے گئے۔ بجنور اور گونڈہ کی جیلوں میں قید رہے اور وہاں بھی شاعری کرتے رہے وہ خود کہتے ہیں۔
پھرتے تھے آزاد مدت سے مدینہ کے مدیر
لیجیے سرکار کے اب وہ بھی مہمان ہوگئے
اور آج بھی صرف ان پر ہی مدیر اعلیٰ کا خطاب چسپاں ہوتا ہے۔ ملک صاحب ایک باکمال شاعر تھے، ان کا مجموعہ کلام ’’کاروان شوق‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوا جس میں 1920ء سے لے کر 1968ء تک کا منتخب کلام شامل ہے۔ تو جناب یہ تھے ملک نصر اللہ خان عزیز جس سے سمن آباد (لاہور) میں ان کے راحت کدے پر ہماری پہلی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے سر سے پیر تک ہمیں یوں غور سے دیکھا جیسے ہم فوج میں بھرتی ہونے کے لیے آئے ہیں اور وہ بھی جیب سے فیتہ نکال کر ہمارا قد ناپنا اور مشین پر کھڑا کرکے ہمارا وزن جانچنا شروع کردیں گے۔ یہ چند ثانیے کا جائزہ تھا۔ ہم کھڑے رہے پھر انہوں نے چونک کر کہا ’’ارے آپ کھڑے کیوں ہیں‘‘ بیٹھیے اس کے ساتھ ہی ایک کرسی ہماری طرف بڑھادی اور خود بھی ایک کرسی پر ہمارے بالمقابل جم کر بیٹھ گئے۔ پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ ادب، شاعری، سیاست، مذہب سب موضوعات پر گفتگو ہوئی اور انہوں نے ہمیں چاروں کھونٹ صحیح سالم پایا، ارشاد ہوا کل سے جا کر اپنی گدی سنبھال لو۔
1960ء کے عشرے کا لاہور مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی اعتبار سے بہت باغ و بہار شہر تھا۔ ایک طرف مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی عصری مجالس کی دھوم تھی تو دوسری طرف حلقہ ارباب ذوق کا چرچا تھا جس میں ملک کے نامور ادیب، شاعر جمع ہو کر خود کو تنقید کے لیے پیش کرتے تھے۔ 1958ء میں جنرل ایوب خان نے ملک پر قبضہ کرکے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی تھی۔ ایوب آمریت کے خلاف حبیب جالب کی مزاحمتی شاعری نے پورے ملک میں ہیجان برپا کر رکھا تھا، جب کہ نعیم صدیقی کی انقلابی نظموں میں بھی دار و رسن کی گونج پائی جاتی تھی۔ ان کی نظم ’’ہم اقراری مجرم ہیں‘‘ کا بڑا چرچا تھا ہم قند ِ مکرر کے طور پر یہاں ان کی اس نظم کے دو بند درج کررہے ہیں تا کہ قارئین کو اندازہ ہو کہ اس نظم میں کتنی انقلابیت بھری ہوئی تھی۔
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
سن اے جباری مجرم ہیں
حق گوئی بھی ہے جرم کوئی
تو پھر ہم بھاری مجرم ہیں
تن من کو نہ منڈی میں بیچا
ہم پیٹ پجاری بن نہ سکے
جو لوگ خدا کے باغی ہیں
ہم ان کے حواری بن نہ سکے
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
اسلامی جمعیت طلبہ کے اجتماعات میں نوجوان یہ نظم ایک خاص ردھم سے پڑھتے اور ایک سحر طاری کردیتے۔ برسبیل تذکرہ 1960ء کا عشرہ اسلامی جمعیت طلبہ کا بھی سنہری دور تھا۔ اس زمانے میں حکیم سعید صاحب نے ’’شام ہمدرد‘‘ کی بنیاد رکھی اور کراچی، لاہور اور ڈھاکا میں ہر ماہ شام ہمدرد کی محفلیں برپا ہونے لگیں۔ ابھی سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش نہیں آیا تھا اور ڈھاکا اس طرح پاکستان کا تہذیبی مرکز تھا جس طرح لاہور یا کراچی۔ حکیم صاحب خود ان مجالس میں بطور میزبان شریک ہوتے اور مہمان خصوصی شہر کی کسی اہم علمی و ادبی شخصیت کو بنایا جاتا جو مرکزی خطاب کرتا تھا اور حکیم صاحب آخر میں اظہار تشکر کرتے تھے۔ لاہور میں شام ہمدرد کا بڑا شہرہ تھا اور لوگ اس کے دعوت نامے حاصل کرنے کے لیے سرگرداں نظر آتے تھے۔ لاہور میں شام ہمدرد کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ ہمدرد کے رابطہ افسر محترم اشرف صبوحی نے اپنی کمپیئرنگ سے اس مجلس کو بہت دلچسپ بنادیا تھا۔ وہ خود ایک صاحب ِ طرز ادیب تھے اور دلی کی ٹکسالی زبان بولتے تھے۔ ایشیا کے دفتر آئے تو رونق لگ جاتی۔ ہم انہیں بیٹھنے اور چائے پر اصرار کرتے تھے لیکن وہ
تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوتے تھے۔ ’’نہیں بھائی میرے پاس وقت نہیں ہے یہ لو دعوت نامہ پکڑو‘‘ اور یہ جا وہ جا، اشرف صبوحی برصغیر کی مٹتی ہوئی اسلامی تہذیب کا چلتا پھرتا نمونہ تھے جس کی خاص علامت وہ پھندنے والی سرخ ترکی ٹوپی تھی جو پاکستان میں صبوحی صاحب کے علاوہ نوابزادہ نصر اللہ خان صاحب کا طرئہ امتیاز تھی۔ انہوں نے آخری عمر تک اس روایت کو برقرار رکھا جب کہ صبوحی صاحب نے ترکی ٹوپی سے ناتا توڑ لیا تھا وہ لاہور سے سبکدوش ہو کر کراچی چلے گئے اور وہیں سپرد خاک ہوئے۔ ’’شام ہمدرد‘‘ میں صبوحی صاحب کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی شام ہمدرد کے مہمان خصوصی تھے۔ پرل کانٹی نینٹل کا وسیع و عریض ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ان میں خواتین بھی خاصی تعداد میں موجود تھیں۔ اب یہ تو یاد نہیں کہ مولانا مودودی نے کس موضوع پر خطاب فرمایا تھا بس صبوحی صاحب کی یہ بات حافظے میں رہ گئی ہے کہ انہوں نے تقریب کے اختتام پر سامعین کو چائے کی دعوت دی تو خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے سورۃ رحمن کی یہ آیت پڑھی ’’حور مقصورات فی الخیام‘‘ آپ لوگ ہال میں ٹھیریں یہیں آپ کے لیے چائے کا بندوبست کیا گیا ہے اور مرد حضرات باہر لان میں تشریف لے جائیں۔ قرآنی آیت کے برمحل استعمال پر مولانا مودودی سمیت متعدد سامعین مسکرانے لگے۔ جن خواتین نے اس کا مفہوم سمجھا وہ بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکیں۔