وزیراعظم کا دورئہ چین

457

وزیراعظم میاں شہباز شریف چین کے پہلے سرکاری دورے پر بیجنگ پہنچ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک بڑا وفد بھی جس میں 8 وفاقی وزرا، 4 مشیران خصوصی اور وزیراعلیٰ سندھ شامل ہیں۔ دورئہ چین کے وفد میں شامل شرکا میں اتحادی حکومت میں شامل بیش تر اہم جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے۔ پیپلز پارٹی سے وفاقی وزیر خارجہ اور وزیراعلیٰ سندھ، جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان مسلم لیگ شجاعت گروپ کی نمائندگی دونوں جماعتوں کے سربراہوں کے صاحبزادگان کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے چین روانہ ہوتے ہوئے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کی بحالی کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ دورئہ چین میں وزیراعظم کی چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات ہوگی۔ شی جن پنگ تیسری مدت کے لیے چینی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے ہیں۔ انہیں چیئرمین مائو کے بعد چین کا طاقتور ترین حکمراں قرار دیا جارہا ہے۔ وزیراعظم کا یہ دورہ جس پس منظر میں ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ گزشتہ عشرے میں چین نے اقتصادی طور پر تیز ترین ترقی کی ہے۔ جس نے اسے عالمی طاقت بنادیا ہے۔ اقتصادی عالمی طاقت جنگی اور دفاعی طاقت میں بھی تبدیل ہورہی ہے۔ چین اور روس کے مشترکہ منصوبے کے تحت قائم ہونے والا عالمی ادارہ شنگھائی تعاون تنظیم ناٹو کے مقابلے میں مزاحمتی اتحاد بن کر سامنے آیا ہے۔ چین کی اقتصادی اور عالمی ترقی کے ساتھ سوویت یونین کے انہدام کے صدمے کا شکار روس ولادیمر پیوٹن کی قیادت میں اپنی طاقت کی بحالی کے سفر پر ہے۔ اس وجہ سے امریکا نے عالمی سطح پر روس اور چین کا گھیرائو شروع کردیا ہے۔ امریکا کی اس پالیسی نے ایشیا و افریقا کے ممالک کو دوراہے پر کھڑا کردیا ہے۔ امریکا کے اصل اتحادی صرف یورپ کے ممالک رہ گئے ہیں، لیکن ان کے مفادات کے درمیان ٹکرائو موجود ہے۔ ساتھ ہی یورپی ممالک اپنی ماضی کی طاقت کھو چکے ہیں، عالمی سطح پر روس اور چین کے خلاف امریکا نے اپنے عزائم پر کوئی پردہ نہیں ڈالا ہے۔ امریکا نے روس پر دبائو بڑھایا تو اپنے تحفظ کی خاطر پیوٹن نے یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا جس دن پیوٹن نے یوکرین پر حملے کا آغاز کیا اسی دن حسن ِ اتفاق یا سوئے اتفاق سابق وزیراعظم عمران خان روس کے دورے پر تھے۔ امریکا نے حکومت پاکستان پر دبائو ڈالا کہ وہ کھل کر روس کی مخالفت کرے۔ یہ دبائو کئی امریکی اتحادیوں پر تھا، جنہوں نے کھل کر روس کی مخالفت نہیں کی ان میں بھارت اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔ اسی طرح امریکا نے تائیوان کے تنازع پر چین کو بھڑکانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ سی پیک کے حوالے سے پاکستان پر امریکی دبائو سے ہر فرد واقف ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ امریکی دبائو کا مقابلے کرنے کے بجائے ہتھیار ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی بھی ملک پاکستان کے اوپر اعتماد نہیں کرتا۔ پاکستان میں اس وقت سیاسی عدم استحکام موجود ہے۔ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے میں عمران خان کی معزولی کی صورت میں اتحادی جماعتوں کی مدد سے قائم ہوئی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کا الزام یہ ہے کہ ان کی حکومت کو اس لیے ختم کیا گیا کہ انہوں نے امریکی ڈکٹیشن کو ماننے سے انکار کیا اور روس کے مخالف کیمپ میں جانے سے انکار کیا۔ روس سے سستی گندم اور تیل کی خریداری کی بات شروع کی، یہی تنازع سعودی عرب اور امریکا کے درمیان بھی شروع ہوچکا ہے۔ ان پیچیدہ حالات میں وزیراعظم میاں شہباز شریف چین کے دورے پر گئے ہوئے ہیں۔ چین اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں پاکستان میں سیاسی اور غیر سیاسی ہر سطح پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ چین پاکستان کا قابل اعتماد دوست ہے۔ یہ تعلقات، جغرافیائی ہمسائیگی کے ساتھ اقتصادی دفاعی پہلوئوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ تبدیل شدہ عالمی حالات اور ان میں درپیش مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے جس بصیرت اور دانش کی ضرورت ہے اس سے ہماری حکمران اشرافیہ محروم ہے۔ اس لیے کہ بصیرت اور دانش زندگی کے اعلیٰ مقاصد سے حاصل ہوتی ہے۔ ہماری حکمران اشرافیہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک فوجی اور سول بیوروکریسی، دوسری سیاسی رہنمائوں پر مشتمل ہے۔ فوجی اور سول بیورو کریسی پالیسی سازی پر غالب ہے جب کہ سیاسی قیادت جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کی اسیر ہے۔ دونوں طبقات بدعنوانی میں لتھڑے ہوئے ہیں جس نے پاکستان جیسے وسائل سے مالا مال ملک کو ’’ڈیفالٹ‘‘ کے دہانے پر پہنچادیا ہے اور اہل دانش سری لنکا جیسے حالات کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ شہباز شریف کی قیادت میں چین جانے والا بھاری بھرکم وفد صرف سیرو تفریح کرکے آتا ہے یا وہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو ایک دوسرے کی طاقت بنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔