اسلام آباد:چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جمہوریت کو ماننے والے اس طرح احتجاج نہیں کرتے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے عمران خان کے خلاف توہین کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکلا احسن بھون اور بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے تفصیلی جواب کے لیے وقت طلب کیا ہے اور انہوں نے عدالت کو کسی بھی یقین دہانی سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے، ساتھ ہی اپنے جواب میں انہوں نے عدالتی حکم سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی، تاہم اب ان کے وکیل فیصل چودھری کا کہنا ہے کہ ہدایت اسد عمر سے لی تھی، عمران خان سے ان کا رابطہ نہیں ہو سکا تھا، جبکہ بابراعوان کا کہنا ہے کہ عمران خان کا نام کسی وکیل نے نہیں لیا تھا۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد ریمارکس دیے کہ دونوں احکامات کے درمیان کا وقت ہدایت لینے کے لیے ہی تھا لیکن عدالت کو نہیں بتایا گیا تھا کہ ہدایت کس سے لی گئی ہے، اگر کسی سے بات نہیں ہوئی تھی تو عدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا، اس بات کی وضاحت تو دینی ہی پڑے گی۔ عدالت نے بابر اعوان اور فیصل چودھری پر اعتماد کیا تھا۔دونوں وکلا نے کبھی نہیں کہا انہیں ہدایات نہیں ملیں۔عمران خان کو عدالتی حکم کا کیسے علم ہوا، یقین دہانی پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے کرائی گئی تھی، پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کا آغاز عمران خان ہی سے ہوتا ہے۔
وکیل احسن بھون نے دوران سماعت کہا کہ عدالت نے حکومت کو وکلا کی عمران خان سے ملاقات کرانے کا حکم دیا، لیکن حکومت نے وکلا کی عمران خان سے ملاقات کا بندوبست نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وکلا کا رابطہ نہیں ہوا تو یقین دہانی کس طرف سے کرائی گئی؟، کیا وکلاء کی کسی سینئر رہنما سے بات نہیں ہوئی تھی، کیا ٹیلی فونک رابطہ بھی نہیں کیا گیا تھا؟، جس پر وکیل فیصل چودھری نے جواب دیا کہ عمران خان سفر میں ہوں تو جیمر ساتھ ہوتے ہیں۔میرا اسد عمر اور بابر اعوان سے رابطہ ہوا تو انہیں عدالتی کارروائی سے آگاہ کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسد عمر رابطے کے وقت ریلی میں نہیں تھے؟۔ تصاویر کے مطابق تو اسد عمر ریلی میں تھے۔جیمرز تھے تو اسد عمر سے رابطہ کیسے ہوا۔فیصل چودھری نے بتایا کہ اسد عمر سے رابطے کے وقت عدالت کا کوئی حکم جاری نہیں ہوا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی حکم میڈیا پر بھی نشر کیا گیا تھا۔عدالت نے 25 مئی کو توازن پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، اسد عمر سے دوسری بار بھی رابطہ ہو سکتا تھا لیکن نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ 26 مئی کے حکم میں عدالت نے کہا کہ اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر رابطہ نہیں ہوسکا تو عدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا، عدالت نے پی ٹی آئی کی یقین دہانی پر حکومت کو ہدایت دی تھی۔وکلا کو ایچ نائن گراؤنڈ میں موجود ہونا چاہیے تھا۔رات 10 بجے تک تو آگ لگ چکی تھی، کیا عدالت اب عمران خان سے پوچھے کہ کیا ہوا تھا۔جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ وکلا نے کبھی نہیں کہا تھا کہ قیادت سے رابطہ نہیں ہوا تھا۔واضح یقین دہانی پر ہی عدالت نے وکلا پر اعتماد کیا تھا۔جلسے کے مقام کے حوالے سے صرف ایچ نائن گراؤنڈ کا کہا تھا۔تحریک انصاف نے عدالتی حکم کا غلط استعمال کیا۔عدالت نے تو پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کو تحفظ دیا تھا۔عدالتی حکم پر حکومت نے رکاوٹیں ہٹا دی تھیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو یقین دہانی کرا کر بہانے نہیں کیے جاتے، اسد عمر سے دوسری مرتبہ رابطہ کیسے نہیں ہوسکتا تھا۔عدالت کا پہلا کام تھا کہ املاک کو نقصان نہ پہنچانے کا کہتی، ایچ نائن سے آگے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ دو وکلا کے ذریعے عدالت کو گمراہ کیا گیا۔10ہزار بندے بلاکر 2لاکھ افراد کی زندگی اجیرن نہیں بنائی جاسکتی۔فیض آباد دھرنے کے دوران ایمبولینس میں لوگ مر گئے تھے، جمہوریت کو ماننے والے اس طرح احتجاج نہیں کرتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت بہت تحمل سے کام لے رہی ہے، دستیاب مواد کے مطابق عمران خان کو نوٹس ہونا چاہیے، پھر بھی وضاحت کا موقع دے رہے ہیں۔نیا جواب عمران خان کے دستخط کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ہفتے کو آئندہ سماعت کی تاریخ مقرر کریں گے۔سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی حکومتی درخواست پر عمران خان سے 5 نومبر تک جواب مانگ لیا۔ عدالت نے عمران خان کے وکیل کو تمام ویڈیوز بھی فراہم کرنے کی ہدایت جاری کردی۔