کیا صدف نعیم ریٹنگ کی نذر ہوگئیں؟

795

صدف نعیم کو سپرد خاک کردیا گیا۔ ان کی صحافت سے وابستگی 2009ء سے تھی جب وہ چینل فائیو سے وابستہ ہوئیں۔ وہ ایک جرنلسٹ گروپ کی جانب سے پریس کلب گورننگ باڈی کا الیکشن بھی لڑ چکی تھیں۔ محنتی اور فرض شناس ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چوبیس میں سے سولہ گھنٹے ڈیوٹی دیا کرتی تھیں۔ فیلڈ رپورٹر کی ڈیوٹی سخت ہوتی ہے۔ وہ بھی سیاسی معاملات اور سیاسی جماعتوں کی کوریج ہو تو سخت کے ساتھ حساس بھی ہوجاتی ہے۔ اوپر سے بریکنگ نیوز کا جنون اور سب سے پہلے خبر جو میڈیا ہائوسز کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور پھر کبھی یوں یہ جنون صحافیوں کی جان کو لاگو ہوجاتا ہے۔ رپورٹرز کی زندگیوں کو دائو پر لگانے کے لیے میڈیا ہائوسز کیا ادائیگی کرتے ہیں؟ وہ تو انہیں ان کی وقت پر تنخواہ کی ادائیگی کرنے سے بھی جان چراتے ہیں۔ الّا یہ کہ انہیں تربیت اور حفاظتی وسائل فراہم کریں، آئے دن صحافی تنخواہوں کی و قت پر ادائیگی کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت بھی وفاقی حکومت اور حکومت پنجاب نے امداد اور وظیفہ کا اعلان کیا ہے لیکن اُن کا چینل خاموش ہے۔ صدف کی کنٹینر کے ساتھ دوڑتے ہوئے ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہورہی ہے، بعض صحافی بھی اپنے بلاگ وی لا گ میں اس کا تذکرہ کررہے ہیں۔ آخر ان کو اتنا رسک لینے کی ضرورت کیوں پڑی؟ وجہ وہی میڈیا ہائوسز کی ریٹنگ کی دوڑ، خبروں کے بازار کو گرم رکھنا جو میڈیا ہائوسز اپنی مجبوری سمجھنے لگے ہیں۔ پھر اس مجبوری کی سولی پر کوئی لٹکے یا اپنی جان سے جائے انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہ بھی خوب ہے کہ ہر میڈیا ہائوس کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا طرف دار (بھونپو) بن کر سامنے آتا ہے۔ غیر جانبداری کس چڑیا کا نام ہے۔ مالکان یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے یا اِس کو اپنے صحافتی کاروبار کے لیے سود مند نہیں جانتے۔ باقاعدہ خبروں کو (اینگلنگ) خاص انداز سے پیش کیا جاتا ہے، کوئی چینل ہے اس کے پی ٹی آئی سے تعلقات خاص ہوں گے کچھ کے (ن) لیگ سے اور کچھ کے پی پی پی سے۔ جن کو عوام کے لیے تو خرچ کرتے نہیں دیکھا گیا البتہ میڈیا پر یہ کوریج کے لیے کوئی بھی قیمت دی جاسکتی ہے۔ استثنا ہے تو جماعت اسلامی کو جن کے الخدمت ونگ کے کارکن عوام کی مدد کے لیے جانوں پر کھیل جاتے ہیں، کیا ان جماعتوں کو سیلاب سے بدحال لوگوں کے سسکتے چہرے نظر نہیں آرہے، لاغر بیمار بچے کسی علاج معالجے کے بغیر چار پائیوں پر پڑے پریشان حال باپ اور ماں اپنے بچوں کی زندگی کے لیے التجائیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہ کاش ہمارے یہ لیڈر اپنے جلسے، جلوسوں اور سیاست کے بجائے کچھ ہم پر ہمارے بچوں پر نظر کرم کریں لیکن کہاں؟ نہ ان کے پاس فرصت ہے نہ فنڈ وہ لائیو کوریج کے ذریعے آنے والے فنڈ کہاں ہیں۔ کس صحافی میں جرأت ہے کہ پوچھے کوئی اقتدار بچانے اور اقتدار میں آنے کے لیے بے چین ہے۔ چینلز کے ذریعے بیانیہ بیچا جارہا ہے۔ سنسنی خیز خبروں کے ذریعے چینلز پر سوشل میڈیا پر سیاسی جنگ چل رہی ہو، اعصاب شل کرکے اپنے ناظرین کو اسکرین سے جوڑے رکھنا جیسے ان کی ایک مستقل پالیسی بن گئی ہے۔ دوسری طرف ناظرین ہیں جن کو کچھ دیکھنا ہے اور اگر لائیو ہو جوشیلی کمنٹری کے ساتھ ہو تو کیا بات ہے۔
ٹھیک ہے سیاسی منظرنامے میں جو نظر آئے اس کی رپورٹ ہونا چاہیے اور ایک خبر کے کئی زاویے ہوسکتے ہیں لیکن کوریج کی کوئی ایک حد ہونی چاہیے۔ جمہوریت جمہوری روایات اور سب سے اہم ترین آئین پاکستان جس کی پاسداری کو مدنظر رکھنا لازم ہونا چاہیے۔ اب اس لانگ مارچ سے پی ٹی آئی کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟ قبل ازوقت انتخابات یا آرمی چیف کی تقرری؟ اور اگر لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ جائے تو انہیں کیا کامیابی حاصل ہوسکتی ہے جب کہ ان دونوں معاملات میں آئین پاکستان میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ یہ میڈیا کی جانب داری ہے یا وصولیابی کہ اس دوران لاہور میں جماعت اسلامی کے تحت یوتھ لیڈر شپ کنونشن ہورہا ہے اور اس کو وہ کوریج نہیں دی گئی جو دینا چاہیے تھی، صرف اس لیے کہ جماعت اسلامی کے فنڈ عوام کی امانت اور عوام کے لیے ہوتے ہیں۔ وہ انہیں اپنی پبلسٹی کے لیے استعمال کرنا حرام سمجھتی ہے۔ میڈیا پر بیٹھے صحافی جب کرپٹ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں اور سیاستدانوں کے خلاف انقلاب کے راگ الاپتے ہیں تو یقینا ان پر یہ قرض ہے کہ کرپشن سے پاک جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو سامنے لائے، غیر جانبداری کے ساتھ بغیر اینگلنگ کے ان کے جلسوں کی کوریج کرے تا کہ عوام کے سامنے ایک بہتر متبادل کی صورت نظر آئے۔ صحافت ایک مقدس مشن ہے، معاشرے کو بہتر سے بہتر بنانا ملک اور عوام کے لیے درست راستے کی نشاندہی یقینا ایک مقدس مشن ہے۔
افسوس آج اس کو مشن کے بجائے کاروبار بنادیا گیا ہے جہاں باقاعدہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے، اقتدار پر قابض جماعتیں اس کو اپنی پبلسٹی تشہیر کے لیے استعمال کرتی ہیں اور خوب کرتی ہیں، پھر اس سے فائدہ اٹھانے والے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، مالا مال ہوتے ہیں استعمال ہونے والے صدف نعیم کی طرح ریٹنگ کی دوڑ کی نذرہوجاتے ہیں۔ دعویٰ کے لیے نہ اپنے سامنے آتے ہیں نہ پرائے۔ بقول ذوقؔ
ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے