سوات میں سیلاب کے بعد ٹی ٹی پی کی واپسی

645

چند ماہ قبل اگست کی بات ہے سوات میں سیلاب نے تباہی مچائی لیکن اب اس سے زیادہ خطرناک تباہی کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے ہمارے وزیر دفاع کہہ رہے ہیں کہ سوات میں لگی آگ نہ صرف اُن کے دامن تک پہنچ سکتی ہے بلکہ کسی کے بھی دامن کو بھی خاکستر کرسکتی ہے۔ ’’کسی‘‘ کی تشریح انہوں نے نہیں کی لیکن وزیر دفاع نے جب یہ بات کہی تو اشارہ کس جانب ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب سوال ہی میں موجود ہے یعنی اعلیٰ ترین اہم ترین سے لے کر عام ترین تک، یعنی عوام تک۔ سوات کے عوام اس دہشت گردی کے طوفان کی آمد کو محسوس کررہے ہیں۔ پچھلے ہفتے انہوں نے سوات کی تحصیلوں میں امن مارچ کا انعقاد کیا۔ یہ دو دن جاری رہا اس میں سوات کے عوام نے وفاقی اور صوبائی حکومت کے نمائندوں کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی، وہ اُن سے شاکی تھے۔ سوات کے شہری کہتے ہیں امن کے لیے جلسے ہورہے ہیں لیکن اُن میں سیاست کی جارہی ہے۔ وزیراعلیٰ پختون خوا، صوبائی وزیر اور مشیر وزیراعظم سے امن کا مطالبہ کررہے ہیں، جب کہ حکومت تو اُن کی ہے، وہ یہ مطالبے کس سے کررہے ہیں۔ عوامی مظاہرے سے خطاب کرنے والے سب ہی رہنمائوں کا ایک ہی مطالبہ تھا ’’امن‘‘ جس کے لیے وہ سب اکٹھا تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے بیس سال سے یہاں بدامنی پیدا کی جارہی ہے۔ پھر امن کے نام پر سیکورٹی کے نام پر ظلم ہورہا ہے، یہ ظلم اور دہشت گردی کی نام نہاد امریکی جنگ میں شرکت کی قیمت ہے۔ یہ سب واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ ملالہ سے لے کر چند روز قبل ہونے والی اسکول وین پر فائرنگ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سوات کے عوام کی نظر میں یہ ’’ڈالری جنگ‘‘ ہے، یہ سفاکی ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اور ادارے آدم خور بن چکے ہیں، پہلے بھی پختونوں کی سرزمین کو ’’کسی‘‘ کے کہنے میں آکر میدان جنگ بنایا تھا اور آج دوبارہ وہی سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ امن کے قیام کی ذمے داری حکومت کی ہے اس صورت حال سے یہ احساس عوام میں پیدا ہورہا ہے کہ ریاستی ادارے ناکام ہی نہیں ہیں بلکہ بدامنی کے ذمے دار بھی ہیں۔
سیلاب کی تباہی سے سوات کے عوام کی معاشی حالت دگرگوں تھی کہ تحریک طالبان پاکستان کی تباہ کاریاں شروع ہوگئیں۔ پہلے اسکول وین پر حملہ کیا گیا ڈرائیور ہلاک اور دو بچے زخمی ہوگئے۔ پھر سوات امن لشکر کے سابق سربراہ اور اپنے علاقے کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ ادریس خان کو ایک ریموٹ حملے میں ہلاک کردیا گیا جس کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔ ٹی ٹی پی کی طرف سے لوگوں کو بھتے کی پرچیاں دی جارہی ہیں بلکہ پچھلے دنوں خبر تھی کہ وزیراعلیٰ پختون خوا محمود خان کو بھی بھتے کی پرچی موصول ہوئی ہے۔ پتا نہیں اس میں کتنی صداقت ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پختون خوا کے علاقوں میں پولیس اور فورسز پر حملے ہورہے ہیں۔ سوات کی امن کمیٹی پر حملے اور اغوا کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ سوات کی اس کمیٹی کے سابقہ سربراہ ادریس خان اور اُن کے ساتھ آٹھ افراد کو ہلاک کرنے کی ذمے داری ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے۔ اس واقعے میں سڑک کنارے ریموٹ بم کا استعمال کیا گیا۔ تکنیکی اعتبار سے یہ آسان ہے۔ اس کے لیے طویل منصوب بندی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہدف کی نگرانی ’’بم کی تیاری‘‘ اسے خاص مقام پر لے جا کر نصب کرنا پھر ریموٹ کنٹرول کے لیے فرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی اپنے نظام کو بحال کرنے میں کامیاب ہے۔ پچھلے سال کابل میں پاکستانی ریاستی اداروں، پشتون جرگہ اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں ٹی ٹی پی کے لوگوں کی واپسی ایجنڈے کا حصہ تھی۔ لیکن ابھی اُن کی واپسی کے طریقہ کار پر کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ مذاکرات سے باخبر افراد کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے رہنما اسلحے سمیت واپسی کے خواہاں ہیں، اس کے لیے اس دلیل کی بنا پر مخالفت کی گئی کہ ان کی مسلح واپسی ملک میں ماضی کی صورت حال دوبارہ پیدا کرسکتی ہے۔ اگرچہ ان مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان کی حکومت کے لیے اپنی حمایت کو ان کی پاکستان مخالف ٹی ٹی پی کے خلاف انتہائی اقدام سے مشروط کیا تھا لیکن یہ خود افغان طالبان کے لیے ایک مشکل قدم ہے۔ جس سے انہیں اپنی حکومت قائم رکھنے میں مشکل ہوسکتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور افغان طالبان جنگجوئوں کا تعلق ہے جو دیرینہ ہے اور ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ پچھلے سال مذاکرات کے بعد اگرچہ کوئی معاہدہ ہونے کا اعلان نہیں ہوا لیکن جنگ بندی ہوئی لیکن پھر ایمن الظواہری کے قتل اور دیگر طالبان کمانڈروں کی پراسرار موت نے تحریک طالبان کو متحرک کردیا۔ اب بغیر اعلان کیے جنگ بندی کا خاتمہ اور سیکورٹی فورسز پر حملے مذاکرات کے لیے دبائو بڑھانے کی حکمت عملی ہوسکتی ہے۔ حکومت محسوس کرے نہ کرے سوات کے لوگ اس دبائو کو محسوس کررہے ہیں۔ انہوں نے امن کے لیے پچھلے دنوں ہونے والے ان مظاہروں میں بھرپور شرکت کی۔ وہ 2009ء کے دور کو واپس آنا نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ 2009ء یا 2010ء نہیں ہے۔ ہم سب پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنا شہر اپنا ملک اور اپنی مٹی نہیں چھوڑیں گے۔