خورشید شاہ کی پکار اور عام صارف

629

پی پی پی کے مقتدر رہنما سید خورشید احمد شاہ ایوان میں چلا اُٹھے کہ ان کے بجلی کے بل میں 2 لاکھ روپے کا فیول ایڈجسٹمنٹ لگ کر آیا۔ سید خورشید احمد شاہ جو سابقہ واپڈا ملازم بتائے جاتے ہیں۔ ان تجربہ کار کی اس پکار کو غور سے سنا گیا اور وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے انہیں پرسہ دیا کہ خورشید شاہ کے گھر کے بل 33 ہزار روپے پر فیول ایڈجسٹمنٹ دو لاکھ روپے کیوں کر لگا۔ اور اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے بات کو متوازن بنانے کے لیے ہدایت کی ہے کہ پورے ملک کے بجلی کے زائد بلوں کی تحقیقات وزیر موصوف کریں۔ اس رب کی تدبیر نے لاوارثوں کی آواز قومی اسمبلی تک پہنچادی ورنہ یہ کہا جاتا ہے کہ برق گرتی ہے بے چارے مسلمانوں پر یعنی جو حلال و حرام کی تمیز رکھتے ہیں وہ واپڈا کے تمام ذیلی اداروں کے گھن گرج کا شکار ہوتے ہیں اور ہر ماہ ان کا بجٹ لرز کر رہ جاتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ ایک ہزار والٹ کا بلب جلے تو ایک یونٹ بجلی صرف ہوئی ایسا چائنا کے لگائے ہوئے کالے میٹروں کے دور میں ہوتا رہا، پھر ان کو بدل دیا گیا کہ یہ معیاد پوری کر گئے اور پھر سید کمپنی کے میٹر اچھے سمجھے گئے جن کے متعلق عام بات ہوئی کہ بجلی والوں نے بجلی چوری کی روک تھام میں ناکامی پر حل یہ نکالا کہ 20 فی صد میٹر تیز کرادیے اور پورے 800 واٹ بجلی صرف ہونے کا ایک یونٹ قرار پائے۔ مگر پھر بھی بات نہ بنی تو کہا کہ ان میٹروں سے بجلی چوری کرنا آسان ہے نیز فیز اور ارتھ کی سروس بدل کر میٹر آہستہ کیا جاسکتا ہے اور یوں اس کی ریڈنگ ریورس کرنا آسان ہے سو پھر ڈیجیٹل میٹر لائے گئے اور پھر یہ میٹر ان ریس کورس کے گھوڑے کے مصداق دوڑنے لگے تو ہانپنے والے صارفین کا بجلی کے عملہ کی مدد سے کنڈا لگانے اور مٹھی گرم کرنے کو جائز سمجھ لیا اور کچھ علما کے فتوے بھی بجلی چوری کو جائز قرار دینے کے لیے آگئے اور یوں بجلی چوروں کے ضمیر کو تھپکی لگ گئی اور اس کے ساتھ ماہرین بھی ڈیجیٹل کا توڑ کرنے میں کامیاب ہوئے اور ایسے پرزے ایجاد کر ڈالے کہ میٹر کو ہاتھ لگائے بغیر میٹر پیچھے کی
طرف لوٹانے لگے اور بجلی کے محکموں کو منہ کی یوں بھی کھانی پڑی کہ باڑھ ہی کھیت کو کھانے لگی، اور چوروں کی ساتھی بن گئی۔ بڑے کارخانے اس کارِ بد کا حصہ بن گئے۔ بجلی کی چوری بڑے لوگوں کی میعار زندگی بن گئی اور سیاست دان، گدی نشین، وڈیرے، مسلکی علمائے سو، کامریڈ، پٹرول پمپ، ادارے سرکاری غیر سرکاری میں حرام خور اس میں جت گئے۔
پرویز مشرف کی حکومت میں جب بجلی چوروں کے خلاف آپریشن ہوا تو ان کی نقاب اُتر گئی اور اشرافیہ کے کریہہ چہرے سامنے آگئے تو بات چل کہ بجلی کا شعبہ ٹھیکہ پر دے دیا جائے۔ لوٹنے والوں سے نجات حاصل کرلی جائے۔ جو روڈ کی سیاست نے روند ڈالی۔ ہڑتال کی دھمکی رکاوٹ بن گئی۔ اور یوں حکومت پیچھے ہٹ گئی۔ اب تک فیصلے حکمرانوں میں نہیں میدانوں میں ہونے کا رواج ہے۔ سو سوچا گیا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا توڑ اس ہی کے تڑکے سے کیا جائے۔ موبائل کیمرے کے ذریعہ ریڈنگ کا سسٹم رائج کرکے اوور بلنگ کی شکایت کو دور کرکے صارفین کا غم و غصہ کم کیا جائے تو اس کا توڑ محکمہ کے بجلی چوروں نے یہ نکالا کہ جعلی میٹر لگادیے اور ریڈنگ کی تاریخ سے ہفتہ عشرہ قبل اصلی میٹر لگا کر اس کی تصویر نکال لی اور اس تبادلہ سے ہر ماہ کی کمائی کا سامان سب کا ہوگیا اور بجلی چوری کی شرح کو کم کرنے اور تعاون نہ کرنے والے صارفین کو سزا دینے کا یہ طریقہ بھی اپنایا ہوا ہے کہ میٹر کی تصویر بجلی بند ہونے کے دوران میں یا اس طرح سے لی جاتی ہے کہ ریڈنگ کی تصویر نہ آئے اور اوور بلنگ کردی جائے۔ سرکاری محکموں کے ساتھ تو یہ کھیل تھا ہی اب گھریلو صارفین بھی سزا وار ٹھیرے اور پھر شکایت مرکز پر تو اب الو بولتا ہے۔ کہیں بھی داد فریاد نہیں، بجلی کے محکموں کے آفس دور پرے ہیں کہ کوئی آ نہ سکے وہاں سواری والا جاسکتا ہے یا پھر رکشا کرکے سیکڑوں روپے کا کرچہ کرے اور کئی چکر کاٹے تو حساب برابر ہوجائے۔ ہاں دلال اب ففٹی ففٹی پر کام کررہے ہیں جو سب کو حصہ بقدر جثہ دے کر یہ خدمات انجام دے رہے ہیں، بل کی آدھی رقم کرائی ہو تو آدھے کا آدھا انہیں دے دیا۔ فل رقم بھی بلکہ معمولی ہوسکتی ہے جتنا گڑ ڈالے اتنا میٹھا کا اصول بجلی کے شعبہ ریونیو میں بھی شان و شوکت سے رواں دواں ہے اور سب کا بھلا ہے اور ہر اک نے آنکھ موندلی ہے۔ یونین کی دھمکی بھی کچھ کرنے نہیں دیتی تو دولت کی لانچ بھی رکاوٹ ہے۔ ان پاٹوں میں صارفین پس رہے ہیں۔ اب تو حالت یہ ہوگئی کہ ٹرانسفارمر جو زیادہ سہولت بجلی کی چوری کی دینے پر جل جاتے کہ وہ صارفین سے چندہ کرکے بنائے جاتے ہیں اور بنانے والا پرائیویٹ مستری تانبہ کے تار نکال کر سلور کے تار سے وائرنگ کردیتا ہے۔ اور یوں وہ تانبہ کا تار مہنگے داموں فروخت کررہا ہے۔ بجلی کے شعبہ نے اب صوبہ سندھ کی درخواست پر حیسکو، لیسکو، سندھ حکومت کے سپرد کرنے کا فیصلہ بھی کر ڈالا اور یوں آئی ایم ایف کا مطالبہ بھی پورا ہوگیا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ دراصل بھاری نرخ کے بلوں کو روکنے کی تدبیر ہے کہ 8 گھنٹے بجلی دو تا کہ تہائی مالیت کا بل آئے۔ سولر سسٹم حل ہے مگر اس کے لیے بھاری رقم کہاں سے آئے حکومت بجلی کے سفید ہاتھی سے نجات چاہتی ہے تو سولر سسٹم کے لیے بلاسود قرض کا اہتمام کرے ورنہ یہ کھیل جان نہیں چھوڑے گا۔ حکومت جتنی سبسڈی واپڈا کو دیتی ہے وہ عوام کو قرض دے کمپنیوں اور واپڈا کے منہ کو جو لگا ہوا ہے وہ چھٹنے کا نہیں۔
واپڈا اور اس کی ذیلی تنظیموں نے قانون شکنی کے بھی ریکارڈ قائم کر رکھے ہیں جس کو مرضی میں آئے اس کو بجلی چور قرار دے کر ڈیڈکٹیشن لگادیں اور بھیانک جرمانہ عاید کردیں جب محکمہ کے قانون میں ان کو یہ اجازت ہرگز نہیں ہے آپ میٹر کو سلو رکھتے ہیں تو صارف کو مطلع کریں ان کی موجودگی میں میٹر اتار کر اس کو ایم این ٹی میں سیل زدہ کرکے بھجوائیں اور اس کی رپورٹ پر تناسب کے حوالہ سے جرمانہ عائد کریں مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے ہورہا۔ آپ کنکشن لگواتے ہیں تو تمام اخراجات، درکار سازو سامان آپ تنصیب کی خاطر محکمہ کے ڈیمانڈ نوٹس میں ادا کرتے ہیں اس میں کنکشن لگانے کا محنتانہ بھی شامل ہوتا ہے مگر پھر جب کنکشن منقطع کرانا ہو تو سازو سامان جو صارفین کا ہوتا ہے وہ بجلی کی کمپنی ہتھیا لیتی ہے اس کا کوئی حق محکمہ کو قانون نہیں دیتا۔ اور یوں بھی جو سامان کنکشن لگاتے وقت کیل سے لے کر تمام اسباب کا محکمہ وصول کرتا ہے۔ اس میں سے بھی آدھا سامان نہیں دیا جاتا، تار کا ایک ٹکڑا اور میٹر تھما دیا جاتا ہے حیران کن بات یہ ہے کہ ڈیمانڈ نوٹ کے ذریعے سامان کی فہرست بھی نہیں دی جاتی کہ محکمہ جو رقم وصول کرنے کا تقاضا کررہا ہے وہ کون سا سامان ہے، اب تو چھوٹی سی کیبن کے کمرشل کنکشن کے لیے FBR کا سرٹیفکیٹ بھی مانگا جارہا ہے۔ جو ایف بی آر ہزاروں روپے رشوت وصول کرکے وہ سرٹیفکیٹ عنایت کررہا ہے۔ بجلی کی شرح کا معاملہ بھی عجب ہے اور کاروباری دنیا کا انوکھا ہے۔ پوری دنیا میں زیادہ خریداری پر نرخ کم کیے جاتے ہیں یہاں زیادہ خریداری پر نرخ پڑھتے ہیں اور بڑھوتی کا یہ عالم ہے کہ گھر کے اگر یونٹ 50 تک ہیں تو نرخ 7.7400 فی یونٹ اور بل 412.18 محکمہ کا 99.67 گورنمنٹ کا ٹیکس یونٹ 300 سے بڑھ جائیں تو فی یونٹ 24.7800 روپے ہوجاتا ہے۔ بس اک لوٹ کا بازار گرم ہے بھٹو سے لے کر شہباز شریف کی حکومت تک سب ان کے آگے بے بس ہیں اور عوام کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑے ہوئے ہیں۔ حکمرانوں کو تو مفت کی سہولت ہے ان کی بلا سے اب حل کیا ہے وہ ہے سولر سسٹم کی تنصیب مگر وہ بھی تو لاکھوں روپے کا خرچہ مانگتا ہے۔ کہاں سے کوئی لائے، حکومت بھی محکمہ بجلی سے جان چھڑائے۔ سولر سسٹم پر سان چڑھائے، بجلی پانی سے پیدا کرے، ہوا سے کرے مگر اس گندسے گلو خلاصی کرائے۔