ـ27 اکتوبر یوم سیاہ

564

آج 27 اکتوبر کو دنیا بھر میں کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ اس روز غاصب بھارت نے کشمیر پر شب خون مارتے ہوئے اپنی فوجیں وادی میں اُتار دی تھیں۔ کشمیریوں پر درندگی کا ہولناک سلسلہ جو 75 برس قبل شروع ہوا تھا، 5 اگست 2019ء کے شب خون کے بعد بظاہر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے مکمل بھارتی تسلط کی شکل میں دراز ہو چکا ہے۔ اور یہ بھارت میں نریندر مودی کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا حصہ ہے۔ جسے بی جے پی سرکار کسی عالمی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی فاشسٹ سیاست کا اٹوٹ انگ بنا چکی ہے۔ امریکی اور برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کی تشویش کے باوجود ظلم و درندگی کا جو بازار گرم ہے اس کی حدت میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی جوں جوں وقت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے ویسے ہی مودی کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ سمیت ہر اہم عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر کو احسن طریقے سے اجاگرکرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے اس کے حل کی کوششیں کیں لیکن بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی کے باعث راہ فراراختیار کرتے ہوئے اپنے ناجائز قبضے کو طوالت بخشی ہے لہٰذا یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتا رہے گا ان تعلقات میں بہتری نہیں آئے گی۔
دنیا کی تمام لا تعلقی کے باوجود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی دستاویزات میں اب بھی ایک حل طلب تنازع ہے۔ سلامتی کونسل کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر 18سے زائد قراردادیں پاس ہو چکی ہیں لیکن مقام افسوس ہے کہ اس کا کوئی حل نہ ہوسکا۔ دنیا کے سامنے خود کو ایک جمہوری ملک کے طور پر پیش کرنے والی مودی انتظامیہ نے کشمیر میں غیر مہذب رویہ اپنا کر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا قتل عام اور استحصال معمول بنایا ہوا ہے۔ کشمیری مسلمان بھارتی ظلم و ستم کا شکار ہیں، گھر گھر بھوک اور بیماری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، ضروریات زندگی کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ خواتین کی عصمت دری کرکے گھروں سے نوجوانوں اور بچوں کو اغوا کیا جا رہا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا راگ الاپنے والے بھارت کی انسانیت دشمنی عالمی قوتوں کو دکھائی نہیں دے رہی۔ آر ایس ایس اور ’’را‘‘ کی جارحانہ پالیسیوں سے ایک بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ بھارت ایک متعصبانہ ہندو ریاست بن چکی ہے۔ کشمیر میں بھارتی فوجی درندے ہر قانون سے ماورا دن دہاڑے ’’سرچ آپریشن‘‘ کے نام پر بے گناہ کشمیریوں کے گھروں میں داخل ہو کر مال و اسباب لوٹنے میں مصروف ہیں، ہزاروں کشمیری نوجوان اور بوڑھے بھارتی فوج کے ٹارچر سیلوں میں حق خود ارادیت مانگنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ مقبوضہ ریاست میدان جنگ کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ جنت نظیر خطے کے تمام تر حسن اور خوبصورتی کو بھارتی فوج کے ظلم و جبر نے لہو لہان کر رکھا ہے۔ آزادی اظہارِ رائے پر شب خون مار کر یہاں سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی گئی ہے ہر طرف سڑکوں پر بھارتی فوجیوں کے جوانوں سے لدی سرکاری گاڑیاں نظر آتی ہیں۔
حالیہ برسوں میں بھارتی فوج نے پیلٹ گن کے استعمال سے سیکڑوں افراد کی بینائی ختم کردی، گولہ باری سے اسکولوں کی عمارتیں تباہ ہوگئیں، چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے۔ خون آلود جھیلیں، جلتے چنار، بلکتے بچے، چیختی عورتیں، گمنام قبریں، سنسان بازار، نعشوں سے بھری گلیاں اور ویران بازار انسانی حقوق کے علم برداروں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھارت کی جانب سے کی جارہی ہیںشاید ہی اتنے بدترین واقعات تاریخ میں اس سے پہلے رونما ہوئے ہوں۔ ’’بنیے‘‘ کا اصل ایجنڈا اکھنڈ بھارت کی صورت میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کا ہے جس کے تحت وہ برصغیر میں مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ خطے میں انتہاء پسندوں نے ہندو جنونیت کی جو آگ بھڑکا رکھی ہے بالآخر یہ پوری دنیا کی تباہی پر منتج ہوگی۔ بھارت میں اقلیتوں بشمول سکھوں کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں۔ مودی سرکار نے مسلم دشمنی کی ساری حدیں عبور کرلی ہیں۔ 1948ء میں مقبوضہ وادی پر قائم کیا گیا فوجی تسلط برقرار رکھنے کے لیے بھارت نے جدوجہد آزادی سے وابستہ کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے کوئی بھی ہتھکنڈہ استعمال کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ ہندوتوا اور آر ایس ایس کی سوچ کی حامل بی جے پی سرکار کشمیر کی خصوصی حیثیت مٹانے کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کے درپے ہے۔
مودی غیرقانونی اقدامات سے کشمیریوں کو دبانا اور ان کے استصواب رائے کے حق کو چھیننا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی آشیر باد پرمذموم توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ او آئی سی کا وفد کنٹرول لائن پر فائر بندی کی خلاف ورزی سے متاثرہ افراد، دیہی دفاعی کمیٹیوں کے اراکین اور شہری انتظامیہ سے ملاقاتیں کرکے اس امر کا اظہار بھی کر چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں شہادتوں اور کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں پر بھارت کو سزا ملنی چاہیے لہٰذا اب سلامتی کونسل کو چاہیے کہ وہ مودی کو پاکستان اور کشمیر میں دہشت گردانہ کارروائیوں اور تخریبی سرگرمیوں سے فوری روک کر قیام امن کے لیے دی گئی قربانیوں کو زائل ہونے سے بچائے۔ دنیا کو جنوبی ایشیاء میں مستقل اور پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کو حل کروانے میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
بھارتی حکومت کی درندگی اور جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے آج کشمیری کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہوئے بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں، ادویات اور غذا کی فراہمی معطل ہونے سے ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے لیکن اس سب کے باوجود عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی خاموشی لمحہ فکر سے کم نہیں ہے۔ کشمیر پالیسی صرف جھنڈے لہرانے، ریلیاں نکالنے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر ’’نہ توتقریر سے، نہ ہی تحریر سے اور نہ سیاستدانوں کی تدبیر سے بلکہ اس کا حل صرف اور صرف شمشیر سے ہوگا‘‘۔