کراچی:ماہرین معاشیات نے کہاہے کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار ڈالر کی قدر بڑھنے کا سلسلہ روک سکتے ہیںتاہم ڈالر کی قیمت میں لائی گئی کمی مصنوعی ہوگی۔
ماہرین کے مطابق مارچ 2022 کے بعد سے ملکی معیشت کس صورتحال سے دو چار ہے، اس حوالے سے اندازہ لگانے کے لئے یوں تو بہت سی علامتیں ہیں، تاہم ڈالر ایک نمایاں علامت ہے، اور پاکستانی معیشت کو روپے کے مقابلے میں ڈالر کے اتار چڑھائو سے بھی جانچا جاتا ہے۔
ڈالر کی قیمت میں کمی اور قدر میں اضافے کے حوالے سے ماہرین نے بتایا کہ اسحاق ڈار ڈالر کی قیمت میں کمی لاسکتے ہیں، تاہم ڈالر کی قیمت میں لائی گئی کمی مصنوعی ہوگی اور اس کے بعد میں نقصانات بھی ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ڈالر کے اتار چڑھائو نے سرمایہ کاروں اور کاروباری حضرات کا بھٹہ بٹھایا ہوا ہے، اپریل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ بنے، اور انہوں نے ڈالر کو سنبھالنے کی کوشش بھی کی، لیکن مفتاح کے پانچ ماہ میں ایک ڈالر 183 روپے سے 240 روپے تک جا پہنچا۔اتحادی حکومت کی جانب سے مفتاح کی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا اور اس تبدیلی کی خبروں کے ساتھ ہی یہ باتیں شروع ہوگئیں کہ ڈار آئے گا تو ڈالر نیچے لائے گا۔
اسحاق ڈار کے ٹریک ریکارڈ پر نظر رکھنے والوں نے کہاکہ ڈار کے پاس ڈالر کو کنٹرول کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ مارکیٹ میں ڈالر کی کمی نہ ہونے دیں۔
کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور تاجر رہنما زبیر موتی والانے اس ضمن میں کہاکہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار صرف ایک کام کرتے ہیں اور وہ ہے ڈالر کی ڈیمانڈ پوری کرنا، ڈالر کو نیچے لانے کے کچھ حربے بھی ہوتے ہیں جنہیں اسحاق ڈار اچھی طرح آزماتے ہیں، اور ڈالر کی قیمت بڑھنے میں کچھ بینکوں نے بھی خوب مال بنایا ہے اوراسحاق ڈار یہ سلسلہ روک سکتے ہیں۔
ماہر معیشت ڈاکر قیصر بنگالی نے کہاکہ معاشی بہتری کے تمام حکومتی اقدامات مصنوعی ہیں، تجارتی خسارہ ختم کیے بغیر ڈالر کی قیمت میں لائی گئی کمی مصنوعی ہوگی، جس کا آگے چل کر نقصان ہوتا ہے۔
اتنے بڑے تجارتی خسارے کے باوجود ڈالر کیسے سستا ہوگا؟، اس حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اس وقت ڈالر حقیقی سطح پر نہیں ہے، اور وہ ڈالر کو 200 روپے سے نیچے لائیں گے۔
منی چینجر کہتے ہیں روپے کی بے قدری میں افغانستان کی ڈالر ضروریات کا پاکستان سے پورا ہونا بھی ایک اہم وجہ ہے۔