ویسے تو الیکشن کمیشن کا کام الیکشن کرانا ہے لیکن سندھ میں لگتا ہے کہ اس کا کام الیکشن ملتوی کرنا ہے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن نے تیسری دفعہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیے۔ سندھ حکومت انتخابات سے بھاگ رہی ہے کہ اُسے شکست کا خوف بلدیاتی انتخابات سے بھگا رہا ہے۔ اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ جب تک اسے ٹالا جاسکتا ہے ٹالا جائے۔ لہٰذا پچھلے دو سال سے ملک کا سب سے بڑا شہر بلدیاتی حکومت سے محروم ہے لیکن الیکشن کمیشن کو اپنا کام کرنا چاہیے اس کے اختیار میں ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی ادارے کو اپنی مدد کے لیے طلب کرسکتا ہے۔ پھر وہ کیوں سندھ حکومت کی خواہش کے مطابق بلدیاتی انتخابات بار بار ملتوی کرتا جارہا ہے۔ دو سال قبل یکم ستمبر 2020ء میں سندھ بھر کی مقامی حکومتیں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل کردی گئی تھیں۔ چند ماہ بعد دسمبر 2021ء میں حکومت سندھ نے زبانی اعلان کیا کہ وہ مارچ 2022ء تک الیکشن کرادے گی لیکن پھر سندھ حکومت کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے الیکشن ملتوی کرکے 24 جولائی 2022ء کی تاریخ دی لیکن الیکشن سے ٹھیک تین دن قبل انتخابات ملتوی کردیے اور اب 28 اگست 2022ء کی تاریخ دی اور پھر تیسری دفعہ 23 اکتوبر کی تاریخ دی جو اب پھر ملتوی کردی۔ لہٰذا کراچی یوں ہی لاوارثوں کے مانند چھوڑ دیا گیا۔ کراچی کے ٹیکس کراچی کے وسائل پر اپنی اجارہ داری رکھنے لوٹ لوٹ کر کھانے کے لیے سندھ حکومت یعنی پیپلز پارٹی الیکشن کرانا نہیں چاہتی۔ ایم کیو ایم سمیت ساری پارٹیاں چپ سادہ کر اس کا ساتھ دے رہی ہیں۔ کیوں کہ کے الیکٹرک سمیت کراچی کے وسائل ان کے لیے دودھ مکھن کی دکان ہیں جہاں انہیں مفت میں سب میسر ہے۔ ترقیاتی فنڈ کے اربوں روپے الگ ہر سال ڈکار جاتے ہیں۔ دوسری طرف کراچی مسائل کی دلدل میں بے یارومددگار ڈوبتا جارہا ہے۔ اس دلدل سے نکلنے کے لیے کراچی کے شہریوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنے حق کے لیے آواز میں آواز ملانی ہوگی۔
سندھ میں بلدیاتی حکومت کی میعاد 30 اگست 2020ء میں ختم ہوئی تھی۔ آئین پاکستان کے مطابق میعاد ختم ہونے کے ایک سو بیس دن کے اندر انتخاب کرانا لازمی ہے۔ لیکن سندھ حکومت نے ٹال مٹول میں ڈھائی سال گزار دیے۔ کبھی مرتضیٰ وہاب معصوم صورت بنا کر پریس کانفرنس کرتے ہیں اور مردم شماری، کبھی حلقہ بندی، کبھی بارش اور کبھی سیکورٹی کو انتخابات کے التوا کی بنیاد بناتے اور کبھی سعید غنی سندھ حکومت کے اس غلط فیصلے کا دفاع کرتے ہیں۔ سندھ حکومت نے اسی دوران بلدیاتی نظام کے قانون میں ترمیم کرکے کالا قانون پاس کرایا۔ ان ترامیم کے تحت کراچی کے بڑے اسپتالوں کا انتظام پیدائش اور موت کے سرٹیفکیٹ، تعلیم اور صحت کے شعبوں پر لوکل گورنمنٹ کا اختیار ختم کرکے صوبائی حکومت کے حوالے کردیا گیا تھا۔ جس کی مخالفت میں حافظ نعیم الرحمن نے شہرئہ آفاق دھرنا دیا اور بالآخر سندھ حکومت کو گھٹنے ٹیک کر مذاکرات کرنے پڑے۔ اُس وقت سے پیپلز پارٹی بار بار بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کررہی ہے تا کہ متوقع شکست سے بچا جاسکے۔ سندھ خاص طور سے کراچی پر قابض رہنے کے لیے حربے تو سارے ہی استعمال کیے جارہے ہیں۔ مرتضیٰ وہاب کراچی کا میئر بننے کی آرزو لیے بیٹھے ہیں۔ اگر انہیں 2015ء سے سندھ کے اختیارات میں وافر حصہ ملا ہوا ہے وزیراعلیٰ کے مشیر، صوبائی وزیر، سینیٹر، ایڈمنسٹریٹر کیا کچھ وہ نہیں رہے لیکن نہ سندھ کی کوئی خدمت ہوئی نہ کراچی کی۔ کراچی کو تو موہنجوداڑو کا ٹوئن سٹی بنادیا گیا، ساتھ یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اس کے اصل ذمے دار خود کراچی کے شہری ہی ہیں اور کراچی کے شہری پریشان ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں انہیں ایک امید نظر آرہی ہے۔ سندھ حکومت چاہتی ہے کہ بلدیاتی الیکشن کسی صورت نہ کرائے لیکن الیکشن کمیشن کو اپنا کام کرنا چاہیے نہ کہ سندھ حکومت کے سیاہ ارادوں پر عملدرآمد کے لیے راہیں ہموار کرے۔