مولانا مودودی ؒ کی شخصیت کے چند پہلو(آخری حصہ)

637

اردو ادب نے بڑے بڑے نقاد پیدا کیے ہیں جن میں مولانا ماہرالقادری ایک بڑا نام ہے۔ میں نے ماہرالقادری کو بہت تو نہیں پڑھا لیکن جتنا بھی پڑھا ہے وہ میرے لیے بہت متاثر کن ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ جوش ملیح آبادی نے اپنی ایک (بیہودہ) کتاب ’’یادوں کی بارات‘‘ ماہرالقادری کے پاس تبصرے کے لیے بھیجی۔ جوش اردو کے ان ’’دانوں‘‘ میں شمار ہوتے ہیں جن کے منہ سے کوئی بھی نکلا ہوا لفظ سند تصور کیا جاتا ہے۔ شاید جوش کا خیال ہو کہ ماہر القادری ان کی اردو دانی کے سحر میں آجائیں گے۔ میرا اپنا خیال یہ تھا کہ ماہرالقادری اس کی بیہودہ گوئی کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے لیکن انہوں نے ان تمام لچی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جوش کی اردو دانی کی وہ بخیہ ادھیڑی کہ مجھ جیسا جوش کا دلدادہ بھی ہونق بن کر رہ گیا۔
میں ماہرالقادری کو اپنے بچپن سے پڑھتا اور شعر و شاعری کے حوالے سے سننا آیا تھا اور بلا شبہ اس بات کا معترف تھا کہ وہ اردو ادب کے نقادوں میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں لیکن جب میں نے مولانا کی تنقیہات و تفہیمات کا مطالعہ کیا تو میں بلا تردد اس بات کا قائل ہو گیا کہ پورے برصغیر میں اگر اردو کا کوئی سب سے بڑا نقاد ہو سکتا ہے تو وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اردو شاعری میں غالبؔ ایک ایسا نام ہے جس نے میر ؔکے بعد اپنے فن کا لوہا منوایا۔ سچی بات یہ ہے کہ شاعری کے خاندان میں اگر میر پہلے پیدا نہ ہوئے ہوتے تو پوری دنیا میں شاید غالب سے بڑا مقام کسی کو بھی نہیں ملتا۔ غالب پر تنقید کرنے والوں کو قلم اٹھانے سے پہلے برسوں سوچنا پڑتا ہے لیکن میں حیران ہوں کے مولاناؒ نے غالب کی شاعری اور اس کی اردو دانی پر جس مدلل انداز میں تنقید کی اس نے غالب کی شاعری اور اس کی اردو دانی پر نجانے کتنے سوالات اٹھا دیے۔
مولانا ؒ کا کیونکہ ان تمام فضولیات سے کوئی تعلق نہیں تھا ورنہ وہ جانے کس کس کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دیتے۔ ان کی جدو جہد کا مشن اس سے بہت عظیم یعنی لوگوں کو حق کے راستے کا درس دینا تھا جس کے لیے انہوں نے اپنی ساری سانسیں وقف کرنے کا عزمِ صمیم باندھا ہوا تھا۔
مولاناؒ نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ ملک کسی بھی مرحلے پر افتراق و انتشار کا شکار ہو اور ملک کے شہری آپس میں ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگنے لگیں۔ اس لیے ان کو اپنی زندگی میں ایک بہت مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ ملک کے مستقبل اور سلامتی کے پیشِ نظر انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جس اندازِ فکر کے ساتھ وہ دعوتِ الی الحق لے کر اٹھے تھے شاید مولاناؒ کا یہ فیصلہ ان کے بہت سارے ساتھیوں کے لیے مناسب نہیں تھا۔ اس فیصلے پر انہوں نے شدید اختلاف کیا اور پھر یہی اختلاف ان سب کا جماعت اسلامی سے علٰیحدگی وجہ بنا۔ مولاناؒ بہر کیف اپنے فیصلے پر قائم رہے جس پر آج تک جماعت اسلامی کے اکابرین عمل پیرا ہیں۔ غور کیا جائے تو دونوں اپنی اپنی جگہ درست تھے لیکن نکلنے والوں کو یہ ضرور بتانا چاہیے کہ ان سب نے جماعت سے باہر نکلنے کے بعد دعوت الی اللہ کے لیے کون کون سے اقدامات اٹھائے اور دین کو عملاً نافذ کرنے کے لیے کیا جدو جہد کی۔ اسی طرح جماعت ِ اسلامی کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ انتخابات در انتخابات میں شریک ہونے کے باوجود ان کے حصے میں اب تک کیا کچھ ہاتھ آیا۔
مولانا ؒ پاکستان کو ایک خالص اسلامی ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اقتدارِ اعلیٰ عوام کے بجائے اللہ رب العزت کے پاس ہونا چاہیے۔ حکمران حاکمِ اعلیٰ نہیں اللہ کا نائب ہوتا ہے اور وہ عوام کو جو حکم بھی دیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں دیتا ہے۔ مغربی جمہوریت میں حاکمِ اعلیٰ عوام ہوتے ہیں اور ان کی اکثریت جو بھی فیصلہ کرے وہ مانا اور قبول کیا جاتا ہے۔ مولاناؒ فرماتے ہیں کہ اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے۔ اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فرد کی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتا ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اور اس کے نقائص ومفاسد سے بالکل پاک ہے اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے، اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہے اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اور جب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کو اسلام کے تابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا یوسفؑ، سیدنا موسیٰؑ، سیدنا داؤدؑ اور نبی کریمؐ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔ اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کو اسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کا تقاضا ہے۔ قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔ اسی طرح معاشرت، تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ ’’اسلامی ریاست‘‘ مفکرِ اسلام مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی اسی طرح کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہٗ کوشش کی ہے۔ ایک طرف انہوں نے اسلام کے پورے نظام حیات کو دینی اور عقلی دلائل کے ساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کو دور حاضر کی زبان میں پیش کیا ہے۔ ان کی تحریرات کے مطالعہ سے قاری کو زندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اور وہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دور حاضر کے ہر فتنے کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اور فوقیت کو ثابت کیا ہے۔ پھر یہ بھی بتایا ہیکہ اس نظام کو دور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کو کس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئے دور جدید کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیا ہے۔ کتاب ہذا دراصل مولانا مودودی کے منتشر رسائل ومضامین کا مجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن) نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کے لیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرمائے (آمین)۔ ماخوز کتاب و سنت ڈاٹ کام (انٹر نیٹ)۔
ایسے ہی ہیروں اور موتیوں کے لیے علامہ اقبال فرما گئے ہیں کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہم تو فقط مولاناؒ کے لیے یہی دعا کر سکتے ہیں کہ
ٓٓٓٓٓآسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے