اسحاق ڈار معاشی تباہی کا تسلسل

680

اسحاق ڈار جو پانچ سال قبل احتساب عدالت سے مفرور ہونے کے بعد پہلی بار پاکستان واپس آئے ہیں۔ اور وزیر خزانہ کے طور پر حلف اٹھایا۔ ان کی واپسی کو ایسے پیش کیا جارہا ہے جیسے وہ شریف خاندان کے ڈالر اکاؤنٹس واپس پاکستان لا رہے ہوں۔ ہمارے معصوم لوگ بھول جاتے ہیں آج معیشت جو دیوالیہ ہونے کے قریب اس کی وجہ اسحاق ڈار اور شوکت ترین ہی نظر آتے ہیں۔
پاکستان کو اس سال 27 فی صد مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا ہے، یہ ملک کے مالیاتی یا تجارتی خسارے سے نمٹنے سے مسلسل انکار کا نتیجہ ہے، اور انتہائی مالی بے ضابطگی اور سیاسی عدم استحکام نے اسے مزید خراب کر دیا ہے۔ وزیر خزانہ کے طور پر ڈار کے پہلے اعلانات نے پاکستانی روپے کی قدر کو کم قرار دیا۔ انہوں نے شرح سود کو کم کرنے، مہنگائی سے لڑنے اور شرح مبادلہ کو مضبوط کرنے کا عزم کیا۔ اگر یہ ابتدائی اشارے جو کئی مہینوں کے ان کے انٹرویوز سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈار اور ملک کی قیادت نے اپنے آخری دور سے کچھ نہیں سیکھا۔ اس وقت وہ خوش قسمت تھے کہ خام تیل خاص طور پر 2014 اور 2017 کے درمیان بین الاقوامی مارکیٹ میں سستا تھا، جس کی قیمت اس سال کے شروع میں دیکھے گئے نرخوں سے نصف سے بھی کم تھی۔ قرض کے کم بوجھ کے ساتھ ان کم قیمتوں کا مطلب یہ تھا کہ ڈار مختصر مدت میں ترقی اور افراط زر کو کم کرنے میں کامیاب رہے۔ اس اقدام کو اس وقت ماہرین اقتصادیات نے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا، جنہوں نے ڈار کی غیر پائیدار پالیسیوں سے پیدا ہونے والے خطرات سے خبردار کیا۔ سنجیدہ ٹیکس اصلاحات کے طویل التواء کو ختم کرنے کے بجائے، ڈار نے نئے ودہولڈنگ ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی عائد کی، جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ کیا، اور اس وقت کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے قرض لینے پر زیادہ انحصار کیا۔ قابل اعتراض مالیت کے منصوبوں کی مالی اعانت جیسا کہ ایک بڑا اور زیر استعمال اسلام آباد ائرپورٹ جس کی لاگت تقریباً 1 بلین ڈالر ہے۔ وہ ایک ایسے وقت میں وزارت خزانہ کے بھی ذمے دار تھے جب چین اقتصادی راہداری (CPEC) کی مالی اعانت کے لیے بڑے نئے قرضوں کا عہد کر رہا تھا۔ اس طرح کی مالی منصوبہ بندی کو بہت ناقص دکھایا ہے۔ مثال کے طور پر، مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے چیف اکانومسٹ نے 2017 میں دعویٰ کیا تھا کہ 2020 تک عالمی تجارت کا 4 فی صد کوریڈور سے گزرے گا، جس میں سی پیک کے اخراجات کے لیے سالانہ 6-8 بلین ڈالر کے کرایے کی فیس ادا کی جائے گی۔
بدقسمتی سے، پاکستان کی جانب سے ان ذمے داریوں کا تدبر سے انتظام کرنے میں ناکامی نے اپنے چینی شراکت داروں کو پریشان اور ممکنہ طور پر تبدیلی کی شراکت داری پر کام روک دیا۔ اگرچہ ڈار اس سلسلے میں وزارت خزانہ کی ناکامیوں کے لیے مکمل طور پر ذمے دار نہیں ہیں، لیکن وہ سی پیک منصوبے کے لیے کئی سال وزیر خزانہ کے طور پر اہم ذمے داری نبھاتے رہے ہیں۔ آخر میں اور سب سے نمایاں طور پر، اسحاق ڈار نے کرنسی منڈیوں میں روپیہ کے دفاع میں 2013 اور 2017 کے درمیان مہنگائی کو ایڈجسٹ کرتے ہوئے 26 فی صد اضافہ کیا۔ گھریلو منڈیوں کو پورا کرنے کے لیے درآمد شدہ خام مال استعمال کرنے والی صنعتیں، اور درآمدات سستی ہونے کی وجہ سے صارفین کے اخراجات میں اضافہ ہوا۔ برآمد کنندگان نے مسابقت کھو دی، اور مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے برآمدات کے 30 فی صد سے زیادہ گر گئیں۔
درحقیقت، ڈار نے پاکستانی پالیسی سازوں کی دہائیوں سے اختیار کی گئی غیر فعال پالیسیوں کو محض بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ سیدھے الفاظ میں: وہ جو کر سکتے تھے نہ کر سکے وہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس گئے۔ شاذ و نادر ہی کوئی دوسرا منصوبہ رہا ہو۔ سب سے نمایاں حالیہ مثال پر غور کریں، جنرل پرویز مشرف کی آمریت جس نے برسوں ڈالر 60 روپے کی شرح کو مقبولیت کے لیے برقرار رکھا۔ جو بات کم معروف ہے وہ یہ ہے کہ اس دوران پاکستان کی برآمدات جی ڈی پی کے ایک چوتھائی (جی ڈی پی کے 16 سے 12 فی صد تک) سکڑ گئیں۔ درآمدات اور اخراجات بڑھنے، برآمدات اور آمدن کم ہونے کے سبب بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے قرضوں پر انحصار کیا گیا۔ حکومت نے بین الاقوامی مارکیٹ میں مختلف بانڈز جاری کیے، عالمی مالیاتی اداروں اور مقامی بینکوں سے قرض لیا۔
اسحق ڈار کے پچھلے دور حکومت میں اسٹیٹ بینک کے اعدادو شمار کے مطابق 2013 میں پاکستان کا مجموعی قرض ساڑھے 14 ٹریلین روپے تھا جو دسمبر 2017 میں ساڑھے 21 ٹریلین روپے ہو گیا ہے۔ یعنی چار برسوں میں قرضوں میں سات ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ ان چار برسوں میں 40 ارب ڈالر مالیت کے بین الاقوامی نئے قرضے لیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جی ڈی پی میں ملکی و غیر ملکی قرضوں کی شرح 74 فی صد سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ مضبوط معیشت کے لیے اصلاحات ناگزیر ہیں لیکن ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار نے معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے کسی قسم کی اصلاحات نہیں کیں۔ توانائی کے شعبے میں زیر گردش قرضوں کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’نئی کمپنی بنا کر تمام سرکلر ڈیٹ کی رقم کو بجٹ سے نکال کر علٰیحدہ کر دیا لیکن اس سے قرض ختم نہیں ہوا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ غیر جانبدار اداروں جیسے اسٹیٹ بینک، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن میں کمزور افراد کو تعینات کیا گیا اور ان اداروں کو غیر جانبدار نہیں رہنے دیا گیا۔ ان کے مطابق معاشی اعدادو شمار پر بھی مکمل یقین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اعداد و شمار میں بھی اپنی مرضی کے مطابق ردوبدل کیا گیا۔
آج اگر ہم پچھلی کارکردگی کو بھول بھی جائیں تو ڈار کے سامنے کئی چیلنجز ہیں جس کے ذمے دار عمران خان اور شہباز شریف دونوں ہیں۔ اسحاق ڈار اس وقت وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھال رہے ہیں جب پاکستان شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے، جس کی وجہ ان کی اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ہے ملک میں پٹرولیم، بجلی، گیس اور اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور شدید مالی بحران کی وجہ سے موجودہ حکومت شدید تنقید کی زد میں ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس پروگرام کے تحت معاشی فیصلے کرنے پڑیں گے، امریکی ڈالر بلند ترین سطح پر ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سیلاب کی وجہ سے نقصان کا ابتدائی تخمینہ لگ بھگ 30 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ اگرچہ مفتاح اسمعیل نے اپنا ایجنڈا مکمل کیا مگر پھر بھی عوام کو پانچ ماہ میں کوئی ریلیف نہیں مل سکا اب اسحاق ڈار کے پاس کوئی حل ہے تو ان کی موجودگی پاکستان کی معیشت کے لیے بہتر ثابت ہو سکے گی ورنہ اس وقت پاکستان کی صورتحال میں کوئی بھی وزیر خزانہ بنے، کوئی حل نہیں نکال سکتا۔
ماہرین معاشیات کے مطابق اس وقت آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ہی چلنا پڑے گا کیونکہ اس کا حصہ بننے کے بعد پاکستان کا وزیر خزانہ صوابدیدی اختیارات نہیں رکھتا، نواز لیگ کو اسحاق ڈار سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ ہیں جبکہ 25 ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات، 3 ارب ڈالر کا خوردنی تیل،2 ارب ڈالر کا کوئلہ درآمد کرنا ہے۔ علاوہ ازیں این ایف سی کے تحت 56 فی صد وسائل کا حصہ تمام صوبوں کو ملتا ہے اس کے ساتھ بلند شرح سود اور مہنگائی کا طوفان، غربت کی بلند ترین شرح، برآمدات میں کمی جس سے ملک دیوالیہ ہونے جارہا ہے، قرضوں کی بھرمار اس کا باتوں کے علاوہ کیا لائحہ عمل ہوگا یہ وقت بتائے گا۔ میرے نزدیک ڈار معیشت میں بہتری تو نہیں لا سکیں گے بلکہ معاشی تباہی کا تسلسل ضرور بنیں گے۔