قانون قدرت کے تحت ہر ذی روح موت کی سمت گامزن ہے۔ اور یہ سلسلہ تا قیام قیامت جاری رہے گا۔ اللہ رب العزت نے انسان کو احسن تقویم پر خلق کیا اور اْسے عقل و شعور کی نعمت عطا کی تاکہ وہ نیکی اور بدی میں تمیز کر سکے۔ اللہ وحد لا شریک نے قرآن حکیم میں انسان سے خطاب کرتے ہوئے سب سے زیادہ زور حسن خلق اور اعلیٰ اخلاق پر عمل پیرا ہونے پر دیا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم نے خود کو ذاتی، گروہی مسلکی اور مذہبی پسند نا پسند اور مفادات کے شکنجے میں اس قدر جکڑ لیا ہے کہ ہماری فکر کا مرکز و محور یہی مفادات ہوکر رہ گئے ہیں۔ جبکہ حْسن خلق اور اعلیٰ اخلاق جن کی دین حنیف نے سب سے زیادہ تاکید کی ہے ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ انسان کا سب سے بہترین دوست انسان ہے اور بد ترین دشمن بھی انسان ہی ہے۔ ہم اپنے اچھے رویے سے دْشمن کو دوست اور بْر ے رویے اور بد اخلاقی سے بہترین دوست کو بھی اپنا دشمن بنا لیتے ہیں۔ بلا لحاظ دین و مسلک، زبان و مذہب قوم و ملت اور رنگ و نسل تمام انسانوں کے مسائل اور ضروریات یکساں ہیں اور اس لحاظ سے انسان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ایک مریض جب کسی طبیب کے پاس جاتا ہے تو طبیب اْس کے مذہب و مسلک یا زبان کے بارے میں دریافت نہیں کرتا بلکہ وہ مریض کو لا حق تکلیف کے بارے میں پو چھتا ہے اور اْسی حساب سے دوا تجویز کر تا ہے۔ کسی شاہراہ پر کوئی حادثہ ہو جائے یا کوئی ارضی وسماوی آفت نازل ہو جائے تو متاثرین سے اْن کی قومیت، زبان یا مذہب و مسلک کی بابت نہیں پوچھا جاتا بلکہ اْنہیں فوری طور پر ضروری مدد فراہم کرنے کی سبیل کی جاتی ہے اور یہی انسانیت کا تقاضا بھی ہے۔ تمام انسان اگر اس ایک نکتے پر اتفاق و اتحاد قائم کرلیں کہ ہم انسانیت کے مفاد کے منافی کوئی عمل نہیں کریںگے تو یہی دْنیا انسانوں کے لیے جنت نظیر ہو جائے اور تمام وہ مسائل جو خود انسانوں کی خود غرضی، مفاد پرستی اور طاقت کے زعم پر دوسرے انسانوں کے استیصال کی وجہ سے دْنیا کو در پیش ہیں ازخود ختم ہو جائیں گے۔ علامہ سیدّ علی کرارّ نقوی کے پیش نظریہی عظیم نظر یہ اور مقصد تھا۔ اْنہوں نے ہمیشہ ہر قسم کے تعصب سے بلا تر ہو کر انسانیت کی فلاح و بہبود کی بات کی اور عملاً اْس پر کار بند ر ہے۔
علامہ صاحب نے تمام مذاہب و مسالک کو جوڑنے، ایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرنیکی کو ششیں جاری رکھیں۔ اْنہوں نے نا صرف اتحاد بین المسلین کے سلسلے میں گراں قدر خدمات بلکہ اتحاد بین المذاہب کے ضمن میں بھی اپنی مساعی جمیلہ کو آخر وقت تک جاری رکھا۔ علامہ صاحب کے بزرگوں کا تعلق امروہا سے تھا وہ 1950 میں کراچی میں متولد ہوئے وہ ایک اعلیٰ پائے کے خطیب، دانشور اور محقق تھے اْنہوں نے اپنی 72 سالہ زندگی میں مختلف النوع مو ضوعات پر بے شمار کتابوں کا عمیق مطالعہ کیا یہی وجہ تھی کہ ہر موضوع پر وہ بے تکان گفتگو کرنے پر قادر تھے۔ امروہا ایک نہایت مردم خیز زمین رہی ہے، اس زمین نے مختلف شعبہ ہائے حیات میں بہترین اذہان معاشرے کو دیے ہیں، جنہوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ رئیس امروہوی، نسیم امروہوی، سیدّ محمد تقی، اور جون ایلیا جنہیں علمی و ادبی دنیا کا ستون تسلیم کیا گیا ہے اسی خطہ زمین سے تعلق رکھتے تھے۔ جبکہ آرٹ و خطاطی کے شعبے کی مایہ ناز شخصیات صادقین اور اقبال مہدی بھی امروہا کے سپوت تھے۔ علامہ علی کرار نقوی کی مذکورہ صاحبان سے قریبی رشتے داری تھی۔ یہ بات شاید کم ہی افراد کے علم میں ہے کہ جون ایلیا نے اپنی زندگی کے آخری ایام علامہ علی کرار کے گھر پر گزارے تھے اور اْن کے قیام کے دوران علامہ صاحب نے اْن کا ہر طرح خیال رکھا۔
علامہ صاحب اپنے برادران و ہمشیرگان میں سب سے بزرگ تھے۔ اس مقام پر علامہ صاحب کے برادر صغیر علامہ سیدّ علی سرکارنقوی کا ذکر نا کرنا زیادتی ہوگی۔ علامہ علی سرکار کم و بیش گزشتہ چاردہائیوں سے راقم الحروف کے قریبی دوست ہیں۔ علامہ علی سرکار پیشے کے لحاظ سے سول انجینئر ہیں لیکن ان کا زیادہ تر وقت دین کے حوالے سے جستجو اور تحقیق میں صرف ہوا ہے۔ وہ ایک بہترین خطیب ہیں اور قرآن مجید کی بیش تر آیات کی تفسیر و تشریح اْنہوں نے بڑے منفرد انداز میں کی ہے جو اہل علم اوراہل نظر کو دعوت فکر دیتی ہے، علا مہ علی کرار ایک وسیع المطالعہ، وسیع النظر اور وسیع القلب شخصیت کے مالک تھے، مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے رکن ہونے کے علاوہ وہ جعفر یہ الائنس کے نائب صدر، جعفریہ آرگنائزیشن کے سرپرست اور متحد ہ دینی محاذ کے بھی اہم عہدیدار تھے، علاوہ ازیںاتحاد بین المذاہب کے حوالے سے بھی چونکہ اْنہوں نے بھرپور کاوشیں کی تھیں لہٰذا دیگر مذاہب کے مفکرین سے بھی اْن کے قریبی رابطے تھے۔ 19اور 20اگست کی درمیانی شب اْنہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ہمارے معاشرے کو علامہ علی کرار جیسے افراد کی جو معاشرے میں ہم آہنگی۔ محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم رکھنے میں اپنی توا نائیاں صرف کرتے ہیں آج بے حد ضرورت ہے۔