کراچی کے شہری اصل مجرم ہیں

467

لیجیے سندھ پر عشروں سے حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی کراچی کے شہریوں کو مورد الزام ٹھیرا دیا گیا۔ سندھ کے وزیر محنت و افرادی طاقت سعید غنی نے اپنے صوبے کے سب سے بڑے شہر کراچی کی افرادی قوت کے خلاف چارج شیٹ جاری کردی کہ خود شہری ہی شہر کے مسائل کے ذمے دار ہیں، حالاں کہ ان سے اگر سندھ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا جائے تو کچھ مثبت کہنا ان کے لیے مشکل ہوگا۔ جب کبھی سندھ حکومت سے اس بارے میں سوال ہوتا ہے کہ اربوں کے بجٹ کے اخراجات کے باوجود کراچی کی گلیاں اور چوراہے کچرے کے ڈھیر سے اٹے کیوں ہیں۔ سڑکیں موہنجودڑو کا منظر کیوں پیش کررہی ہیں۔ سیوریج کا نظام ابتر کیوں ہے پانی کے بجائے نلوں سے گیس کیوں آتی ہے۔ کے الیکٹرک من مانیوں پر کیوں اُتری رہتی ہے تو وہ اپنی بے بسی کا رونا رو کر رہ جاتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کہہ چکے ہیں کہ سندھ حکومت نے سندھ میں کوئی کام نہیں کیا، تھرپارکر پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہا ہے، ایک آر او پلانٹ نہیں لگا البتہ اس مد میں پندرہ سو ملیں روپے خرچ ہوگئے۔ 2014 میں تعلیم کا ایک منصوبہ شروع ہوا 2600 ملین روپے خرچ ہوگئے 2017ء میں ختم ہوگیا ان پیسوں سے دنیا کی بہترین یونیورسٹی بنائی جاسکتی تھی۔ جسٹس صاحب نے تو پاکستان ریلوے کی زمین کی فروخت پر پابندی لگائی ورنہ سندھ حکومت تو سب کچھ بیچ کھانے کو تیار تھی، کڈنی ہل پارک کشمیر روڈ کی تعمیرات الٰہ دین واٹر پارک بس جو ہوسکے اس کو بیچ کھایا جائے۔ سندھ حکومت نے یہی اصول بنایا ہوا ہے۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم کا یہی اصول تھا۔ کراچی کے نالے تجاوزات کا شکار ہیں، واٹر بورڈ پانی فراہم نہیں کرتا، پانی بیچا جاتا ہے، کے فور منصوبہ نعمت اللہ خان دے گئے لیکن اس منصوبے پر عمل کون کرے؟ لہٰذا کراچی کے عوام ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر ہیں جو عوام کو مضر صحت پانی فراہم کرتے ہیں اور من مانے معاوضے وصول کرتے ہیں۔
پاکستان کا یہ سب سے بڑا شہر ہے جس کو ایک طرف کے الیکٹرک اور دوسری طرف ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ شہر بھر میں مسلح لٹیرے دندناتے پھرتے ہیں اور معمولی سی مزاحمت پر قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ صرف پچھلے ایک ماہ میں ڈکیتی کے دوران بارہ شہری قتل کیے جاچکے ہیں اور کوئی اس سے تین گنا افراد ایسی ہی وارداتوں میں زخمی کیے گئے۔ یومیہ کوئی ایک درجن اسٹریٹ جرائم کی وارداتیں پولیس میں رپورٹ ہوتی ہیں جب کہ اصل تعداد اس سے کئی گناہ زیادہ ہے، کیوں کہ پولیس خود کرائم ریٹ کم ظاہر کرنے کے لیے رپورٹ نہیں کرتے۔ دوسری طرف خود شہری بھی پولیس کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔ سندھ حکومت کی حمایت میں پولیس کا بیان تو جیسے زخموں پر نمک ہے۔ کہتے ہیں کراچی کے شہری خاص طور سے تاجر واویلا زیادہ کرتے ہیں ورنہ صورت حال اتنی خراب نہیں۔ تاجر ان سے کہتے رہ گئے کہ جناب دن دہاڑے بینکوں کے سامنے مصروف ترین شاہراہوں پر لوٹا جارہا ہے، ابھی چند دن قبل صحافیوں کے جو قیمتی کیمرے اور لینس چھین لیے گئے۔ حال یہ ہے کہ خود پولیس والے محفوظ نہیں، ڈاکو ان سے سرکاری اسلحہ لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ وہ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اور پھر اس اسلحے سے ڈاکو شہریوں کو لوٹتے ہیں۔ حصہ کس کس کو پہنچتا ہے۔ اس کی کوئی اطلاع نہیں۔ البتہ شہری بے حال ہیں ان ہی کے ساتھ ہاتھ ہورہا ہے اور ہاتھ کرنے والوں کے ہاتھ میں ان ہی کے ٹیکسوں سے خریدے گئے ہتھیار ہیں۔ اور کراچی کے میئر بننے کا خواب دیکھنے والے بھی سندھ حکومت کے کرتا دھرتا تان میں تان ملاتے ہیں۔ اور شہریوں کو احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں۔ اب شہریوں کو ان کا مشورہ مان ہی لینا چاہیے۔