سندھ کے نئے گورنر کامران ٹیسوری کی تعیناتی پر ایک ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ یقینا اس کا ایک بیک گرائونڈ ہے۔ ایم کیو ایم کے اپنے اندر اس پر حیرانی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ پارٹی نے بظاہر اس تعیناتی کو ویلکم کیا ہے لیکن اندر کھاتے کوئی بھی خوش نہیں۔
لوگوں کو کامران ٹیسوری کی شخصیت اور اس سے جڑے بہت سارے نئے پرانے کارناموں پر اعتراض ہے۔ ٹیسوری صاحب کی پرانی تصویریں ٹویٹر پر شیئر کی جارہی ہیں‘ یہ پوائنٹ سمجھانے کے لیے کہ وہ بھارتی فلموں کے ولن لگتے ہیں۔ مطلب سارا ایشو ظاہری حسن کا ہے کہ آپ دِکھنے میں کیسے نظر آتے ہیں۔ آپ کے کردار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت میں رنگ کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے کہ کون گورا ہے اور کون سانولے رنگ کا ہے۔ رنگ دیگر ملکوں میں بھی اہمیت رکھتا ہے اور یورپ میں بھی اس پر لے دے ہوتی رہتی ہے لیکن پاکستان اور بھارت میں یہ احساس زیادہ اہم ہے کہ آپ دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو نئے گورنر سندھ کی شخصیت کچھ زیادہ پسند نہیں آئی اور ان کی مختلف تصاویر پر بڑی لے دے ہورہی ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی واحد قابلیت ان کا ایک تگڑا اے ٹی ایم ہونا ہے۔ بعض لوگ ان کا مقابلہ ایم کیو ایم کے ہی طویل عرصے تک گورنر سندھ رہنے والے عشرت العباد سے کررہے ہیں جو دیکھنے میں ڈیسنٹ‘ مہذب‘ رکھ رکھائو والے لگتے تھے اور گفتگو کا سلیقہ بھی خوب جانتے تھے۔ لیکن ان پر بھی بڑے سنگین الزامات تھے۔ جب وہ گورنر بنے تھے پرویز مشرف کا دور تھا لہٰذا کراچی میں ان کا توتی بولتا تھا۔ عشرت العباد کے دور میں ہی ان کی پارٹی کے تیس‘ پینتیس لوگوں کو پے رول پر رہا کر دیا گیا جو بعد میں غائب ہوگئے جن پر قتل‘ اغوا‘ بھتہ لینے جیسے سنگین الزامات تھے۔ لیکن وہی بات کہ وہ ڈیسنٹ لگتے تھے‘ ڈریسنگ اچھی تھی اور گفتگو بھی مہذب انداز میں کرتے تھے۔ وہ طویل عرصہ گورنر رہے مگر لوگوں کو کوئی مسئلہ نہ ہوا۔ اب دیکھا جائے تو عشرت العباد اور
کامران ٹیسوری ایک ہی پارٹی سے ہیں‘ بیک گرائونڈ بھی ایک جیسا ہے‘ مقدمات دونوں پر تھے لیکن ٹیسوری پر زیادہ تنقید ہورہی ہے اور وجہ وہی ہے جو میں نے بتائی کہ عشرت العباد اچھا لباس پہن کر اچھے طریقے سے گفتگو کرنے کا فن جانتے تھے جبکہ ٹیسوری صاحب ظاہری حلیے سے فلموں کے ولن لگتے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے یہ ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آپ اصل زندگی میں بھی ولن ہوں اور پھر شخصیت سے بھی ولن لگتے ہوں۔ یہ کام یوں چل سکتا ہے کہ اگر آپ اصلی زندگی میں ولن ہیں تو کم از کم ظاہری شخصیت کو ولن نہ بننے دیں۔ پھر عشرت العباد ماڈل فالو کریں۔ خیر‘ اب ایک سوال اٹھتا ہے‘ کیا ظاہری حلیے سے ولن نظر آنے والے سب لوگ ولن ہوتے ہیں یا پھر ان کی شخصیت میں محبت پیار بھی ہو سکتا ہے؟ یا پھر جتنے ہینڈسم یا کیوٹ لوگ ہیں وہ بڑے ایماندار ہیں اور اچھے ہیں؟ اس ملک پر کتنے پڑھے لکھے‘ خوبصورت اور ہینڈسم لوگوں نے حکومت کی؟ دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر اس ملک پر حکومت کرنے آئے۔ ہاں یہ ضرور فرق تھا ان میں کہ انہوں نے وائٹ کالر کرائمز کیے۔ مال پیسہ بنانے کے جدید ذرائع استعمال کیے۔ ایک عام لٹیرے کے برعکس ایسی وارداتیں ڈالیں کہ لوگوں کو محسوس ہی نہ ہوا کہ ان کی جیب پر ڈاکا ڈالا گیا ہے۔
شوکت عزیز کو دیکھ لیں۔ سات ارب روپے کی جائداد کے مالک اور توشہ خانوں کی بنیانیں‘ موزے‘ جرابیں تک نہ چھوڑیں۔ بینظیر بھٹو کا جنیوا میں نیکلس اسکینڈل ہو یا زرداری کے ساٹھ ملین ڈالرز سوئس بینکوں میں منی لانڈرنگ کے بعد رکھے گئے ہوں۔ اب ذہن میں رکھیں کہ بینظیر بھٹو آکسفورڈ سے پڑھی ہوئی تھیں لیکن اگلوں نے ایک نیکلس سے خرید لیا۔ زرداری کی جائداد کا تو اب کوئی حساب نہیں۔ فاروق لغاری بھی آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ تھے لیکن کیا ہوا؟ رضی فارم اسکینڈل میں وہ بھی پھنس گئے جب ایک بینک کے اہلکار یونس حبیب کو اپنی ناکارہ زرعی زمین مارکیٹ سے زیادہ نرخ پر بیچ کر کروڑوں کمائے۔ عمران خان کو دیکھ لیں۔ ان سے زیادہ ہینڈسم کون ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ بیگم بشریٰ نے ایک پارٹی سے چار سو کنال زمین اپنے نام کرا لی۔ بدلے میں خان صاحب نے اس پارٹی کو مبینہ طور پر پچاس ارب روپے کا فائدہ دیا۔ اس طرح کی کئی کہانیاں ہیں۔
شریف خاندان کے لوگ بھی بظاہر بڑے cool اور سافٹ ہیں۔ لیکن ان کے کارنامے پانچ براعظموں تک پھیلے ہوئے ملیں گے۔ اسحاق ڈار کی شخصیت دیکھ لیں۔ ماشاء اللہ بہت شاندار ہے۔ لیکن ان کا نیب کو دیا گیا اعترافی بیان پڑھ لیں جس کی بنیاد پر نیب چیئرمین جنرل امجد نے ان کی سزا معاف کر دی تھی تو آپ کے کانوں سے دھواں نکلے گا۔ اس طویل اعتراف نامے میں انہوں نے پورے شریف خاندان کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا تھا۔ اگر پھر بھی آپ کو شک ہو تو سلمان شہباز اور حمزہ شہباز کو دیکھ لیں۔ منی لانڈرنگ کے جو جدید طریقے انہوں نے ڈھونڈے وہ آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔ شخصیت تو جہانگیر ترین کی بھی بہت شاندار ہے لیکن انہوں نے بھی ملازموں کے اکائونٹس کھلوا کر ان کے نام پر غیرقانونی طور پر شیئرز خرید کر کروڑوں کما لیے جس جرم کی سزا چودہ سال بنتی تھی لیکن چند لاکھ جرمانہ دے کر جان چھڑا گئے کیونکہ خود وزیر تھے اور پرویز مشرف کا دور تھا۔ لہٰذا بات دب گئی۔
شخصیت تو مریم نواز کی بھی بڑی شاندار ہے لیکن وہی مریم ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ان کی لندن چھوڑیں‘ پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں ہے۔ اور پھر پاکستان ہی میں ان کی جائداد نکل آئی۔ شہباز شریف پر بھی سولہ ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ چل رہا ہے۔ حمزہ شہباز بھی اس کیس میں ملزم ہیں۔ حسین نواز کو دیکھ لیں کہ کتنا معصوم اور سادہ نوجوان لگتا ہے۔ لیکن وہ اس وقت مفرور ہے اور خاندان کی بزنس امپائر چلارہا ہے۔ پاناما کیس اگر دیکھ لیں تو وہ سب کچھ ان کے اردگرد ہی گھوم رہا تھا۔ اب وہ بھی فارن کوالیفائیڈ ہیں اور سب جدید طریقے جانتے ہیں۔ ایک طویل فہرست ہے جو نام گنوائے جا سکتے ہیں کہ کیسے کیسے پڑھے لکھے اور ڈیسنٹ لکس والے بڑے لوگ مال بنانے میں مصروف تھے۔ اس طرح جو لوگ اس ملک کی بیوروکریسی میں بیٹھے ہیں‘ آپ کا کیا خیال ہے یہ افسران ہینڈسم یا پڑھے لکھے اور متاثر کن شخصیتوں کے مالک نہیں ہیں؟ کبھی ان سے ملیں تو ان کا رعب و دبدبہ دیکھ کر آپ سانس لینا بھول جائیں۔ لیکن سب سے زیادہ مال یہی لوگ بنا رہے ہیں۔ تقریباً آدھا کینیڈا اس وقت پاکستانی بیوروکریسی سے بھرا ہوا ہے‘ ان لوگوں نے پاکستان سے پیسہ بنا کر وہاں کی شہریت لے رکھی ہے۔ زیادہ تر نے بچے وہیں سیٹل کر دیے ہیں۔ لاکھ‘ ڈیڑھ لاکھ روپے تنخواہ والے پولیس افسران نے کینیڈا میں بیس بیس لاکھ ڈالرز کے گھر خرید کر بچے شفٹ کر لیے ہیں۔ یقینا اس بیوروکریٹ کلاس میں ایماندار افسران بھی شامل ہیں جن کی شخصیت بھی متاثر کن ہے۔ لیکن آٹے میں نمک برابر۔
آج ہمارے معاشرے میں کتنے افراد کرپٹ لوگوں سے دور رہنا پسند کرتے ہیں یا ان کے ساتھ اپنے بچوں بچیوں کے رشتے نہیں کرتے؟ کون لوگ ان کی بڑی گاڑیوں سے متاثر نہیں ہوتے اور ان کے حلقہ ٔ احباب میں شامل ہونے پر فخر محسوس نہیں کرتے؟ جو آج کامران ٹیسوری پر اعتراض کررہے ہیں‘ انہی لوگوں کو کل کو گورنر ہائوس بلایا جائے تو کتنے لوگ انکار کر سکیں گے کہ انہوں نے آپ سے جڑی بڑی غلط باتیں پڑھی ہیں۔ سب دوڑے جائیں گے کہ گورنر نے دعوت دی ہے۔ کامران ٹیسوری پر ہونے والی بحث کے بعد سمجھ میں آیا کہ بندہ بس کیوٹ ہو، ہینڈسم ہو پھر وہ بے شک ساری دِلی یا بریلی کا بازار لوٹ لے۔