یوں تو پاکستان کی تمام حکومتیں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہی ہیں۔ نواز شریف کی حکومت نے تو اس سلسلے میں ’’ریڈ لائن‘‘ بھی عبور کرلی تھی، وہ ہر قیمت پر بھارت کے ساتھ تعلقات کو محض بہتر ہی نہیں بہت مضبوط و مستحکم بنانا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے نئی دہلی جا پہنچے اور پاکستانی ہائی کمیشن میں ملاقات کے منتظر کشمیری رہنمائوں کو نظر انداز کرکے اپنے کاروباری دوستوں سے ملتے رہے۔ اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے مودی سے ذاتی دوستی گانٹھی، اسے اپنی نواسی کی شادی میں جاتی امرا مدعو کیا اور تحائف وصول کیے۔ میاں نواز شریف کی والدہ بھی اُس وقت حیات تھیں، میاں صاحب نے مودی کو ان سے بھی ملایا۔ بھارتی وزیراعظم نے ان کے پائوں چھوئے اور ان کی دعائیں لیں۔ اس موقع پر میاں صاحب کی والدہ نے دونوں وزرائے اعظم کو نصیحت کی کہ اگر تم دونوں مل کر چلو گے تو کامیاب رہو گے۔ مودی نے جواب میں کہا ’’ماں جی ہم مل کر ہی چل رہے ہیں‘‘۔ (یہ ساری باتیں اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں)۔ بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے یہ سارے جتن کرنے کے باوجود مسئلہ کشمیر دونوں ملکوں کے تعلقات میں بدستور رکاوٹ بنا رہا۔ میاں نواز شریف نے بطور وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کیا تو انہیں اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کا ذکر لازماً کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دورِ حکومت میں مسئلہ کشمیر کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے ہر سطح پر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی۔ بھارت نواز کشمیری لیڈروں کو بھی پاکستان بلایا لیکن وہ کوئی نتیجہ برآمد کرنے میں ناکام رہی۔ عمران خان کی حکومت آئی تو انہوں نے ابتدا میں مسئلہ کشمیر پر بڑا دلیرانہ موقف اختیار کیا۔ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کے لیے نیویارک گئے تو وہاں انہوں نے ایک شاہکار خطاب کیا جس کی بڑے پیمانے پر پزیرائی ہوئی۔ کشمیریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ مدتوں بعد پاکستان میں ایک ایسا لیڈر آیا ہے جو مسئلہ کشمیر پر کسی مصلحت یا مفاہمت کا شکار نہیں ہے اور اس کے دور میں اس دیرینہ مسئلے کے حل کی اُمید کی جاسکتی ہے، لیکن جب عمران خان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کرکے وطن واپس آئے تو ان کا رویہ بدل گیا اور انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ساری اُمیدیں صدر ٹرمپ سے وابستہ کرلیں کیوں کہ اس نے انہیں یقین دلایا تھا کہ گھبرائو نہیں میں یہ مسئلہ حل کرادوں گا۔ جب بھارت نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کے اندر ضم کرلیا اور کشمیریوں کے تمام آئینی حقوق سلب کرلیے تو بتایا جاتا ہے کہ اس موقع پر بھی عمران خان نے صدر ٹرمپ کے کہنے پر خاموشی اختیار کرلی اور بھارت کے اس ہولناک ایکشن پر نہایت پھسپھسا ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے نہ سلامتی کونسل کا خصوصی ہنگامی اجلاس بلانے کی کوشش کی، حالاں کہ بھارت کا یہ ایکشن سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی سنگین خلاف ورزی تھی اور سلامتی کونسل کو اس کا ازخود نوٹس لینا چاہیے تھا، نہ ہی عمران حکومت کی طرف سے او آئی سی کا خصوصی سربراہ اجلاس بلانے کے لیے کوئی سفارتی سرگرمی دیکھنے میں آئی۔ اس سے بڑھ کر یہ المیہ پیش آیا کہ بھارت ایک طرف مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کررہا تھا اور دوسری طرف او آئی سی کے رکن ممالک بھارتی وزیراعظم مودی کو ہار پہنا رہے تھے، اسے ایوارڈ دے رہے تھے اور بھارت کے ساتھ تعاون باہمی کے معاہدے کررہے تھے۔
اب پاکستان میں شریفوں کی پھر حکومت ہے۔ میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کر فیصلے کررہے ہیں اور شہباز شریف بطور وزیراعظم ان فیصلوں پر عملدرآمد کررہے ہیں۔ شاید میاں صاحب کی ہدایت پر ہی بھارت کے ساتھ تجارت کی باتیں ہورہی ہیں اور مریم نواز کا داماد بھارت سے شوگر پلانٹ خریدنا چاہتا ہے۔ ایسے میں لوہا گرم دیکھ کر امریکا نے بھی ضرب لگائی ہے اور پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے، حالاں کہ یہ مشورہ اسے پاکستان کے بجائے بھارت کو دینا چاہیے جس پر تعلقات کو بگاڑنے کی تمام تر ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کو مشورہ دینے کا واحد مطلب یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کا جو غیر اخلاقی، غیر قانونی اور ظالمانہ قدم اُٹھایا ہے، پاکستان اسے ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلے اور اس پر بھارت سے کوئی احتجاج نہ کرے بلکہ اس کے برعکس وہ بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے اور اس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے جتن کرے۔ ممکن ہے شریفوں کی حکومت امریکا کے مشورے پر سنجیدگی سے غور شروع کردے۔ غور کیا درپردہ اس مشورے پر عملدرآمد بھی شروع ہوجائے لیکن کیا وہ اس خنجر کو نکالنے میں کامیاب رہے گی جو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرکے پاکستان کے دل میں اتار دیا ہے۔ کیا وہ اہل کشمیر کو مطمئن کرپائے گی جو اب بھی پاکستان سے کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں۔ کیا وہ پاکستانیوں کی ہمدردی سمیٹ پائے گی جو ہر حال میں اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو امریکا کا یہ مشورہ انتہائی گمراہ کن اور مغالطہ انگیز ہے۔ اگر امریکا کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی اور بہتری میں اتنی ہی دلچسپی ہے تو اسے یہ مورہ بھارت کو دینا چاہیے اور اس پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ 5 اگست 2019ء کا ایکشن واپس لے کر کشمیریوں کے آئینی اور قومی حقوق بحال کرے اور مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے بجائے ایسا سازگار ماحول پیدا کرے جس میں کشمیری عوام اپنے دل کی بات زبان پر لاسکیں۔ پھر وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئے اور مسئلہ کشمیر کو حق و انصاف کی بنیاد پر حل کرنے کے لیے کھلے دل سے بات کرے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بحال کرنے اور بہتر بنانے کا یہی آبرو مندانہ طریقہ ہے، اس سے ہٹ کر جو بھی شارٹ کٹ اختیار کیا جائے گا وہ بند گلی میں جا کر تحلیل ہوجائے گا۔