عدالتوں میں انصاف ہے نہ ایوانوں میں، احتساب کے ادارے بے بس ہیں، سراج الحق

408
became a tyrant

لاہور: امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک میں احتساب نام کی کوئی چیز نہیں بچی، عوام کا اداروں کے ساتھ ریاست پر اعتماد بھی ختم ہو رہا ہے۔ عدالتوں میں انصاف ہے نہ ایوانوں میں قانون سازی، احتساب کے ادارے بے بس، الیکشن کمیشن شفاف انتخابات نہیں کرا سکتا۔

سراج الحق نے کہا کہ تعلیمی ادارے برباد، ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر، غریب کے لیے ہسپتال میں علاج دستیاب نہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں پوری طرح ایکسپوز ہو گئیں، مصنوعی آکسیجن پر نظام نہیں چل سکتا۔ اللہ کی مددونصرت اور عوام کی تائید سے اقتدار ملا تو جماعت اسلامی کرپٹ لوگوں کا کڑا احتساب کرے گی۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان  کا کہنا تھا کہ  عوام نے گزشتہ سات دہائیوں میں مارشل لاز اور نام نہاد جمہوری ادوار دیکھ لیے اب ایک موقع اسلامی نظام کو ملنا چاہیے۔ جماعت اسلامی آئین و قانون کی بالادستی اور عوام کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

 سراج الحق نے کہا کہ تین کروڑ سیلاب متاثرین کی بحالی، پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے جھگڑوں کی نذر ہو گئی۔ حالات یہ ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ابھی تک سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا درست اندازہ نہیں لگا سکیں۔ حکومت کہتی ہے کہ سیلاب سے تیس ارب ڈالر کے نقصان ہوئے جب کہ ایشیائی ترقیاتی بنک کا تخمینہ چالیس ارب ڈالر ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ  بحالی کے کاموں میں تاخیرسے مزید بحران پیدا ہوں گے۔ حکومت نے تاحال متاثرین کی بحالی کے لیے کام کا آغاز نہیں کیا۔ موسم سرما کا آغاز ہو چکا، مگر لاکھوں لوگ خیموں میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ نکاسی آب کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے آبادیوں میں تعفن اور بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں ہیضہ، ملیریا اور دیگر امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں چھ لاکھ خواتین حاملہ ہیں جن کے لیے میڈیکل سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، اسی طرح لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔  امیر جماعت نے کہا کہ حکومت نے سیلاب متاثرین کے لیے فنڈز کا کوئی شفاف نظام تشکیل نہیں دیا۔ بدقسمتی سے سیلاب کے دوران بھی مرکزی و صوبائی حکومتیں آپس میں دست و گریبان رہیں۔ ڈیزاسٹرمینجمنٹ کے ادارے بری طرح ناکام اور ایکسپوز ہو گئے، ضرورت اس چیز کی ہے کہ ریجنل سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اداروں کو منظم کیا جائے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ریلیف کے لیے امدادی سامان اور ایمرجنسی حالات سے نمٹنے کے آلات وغیرہ مرکز میں پڑے رہیں اور لوگ دور دراز علاقوں میں ان کے منتظر رہیں۔