تہران: ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف “عدم استحکام کی پالیسی” کا سہارا لے رہا ہے جو مہسا امینی کی موت پر ہونے والے مظاہروں کی زدمیں ہے۔
تفصیلات کے مطابق 16ستمبر کو تہران میں اخلاقی پولیس کے ہاتھوں خواتین کے لیے ملک کے سخت لباس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتاری کے بعد 22 سالہ کرد نژاد ایرانی کی موت کے بعد سے ایران میں بدامنی کی لہر دوڑ گئی ہے،سڑکوں پر ہونے والے تشدد کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں، جن میں زیادہ تر مظاہرین تھے سکیورٹی فورسز نے سینکڑوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔
رئیسی نے قازقستان میں ایک سربراہی اجلاس میں کہا کہ “امریکہ کی عسکریت پسندی اور پابندیوں میں ناکامی کے بعد، واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں نے عدم استحکام کی ناکام پالیسی کا سہارا لیا ہے۔”
انہوں نے اپنے دفتر کے حوالے سے کہا کہ ایرانیوں نے “امریکی فوجی آپشن کو باطل کر دیا تھا اور پابندیوں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا تھا، واشنگٹن نے تہران پر سنہ 2018 سے اس وقت سے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کو ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے سے الگ کر دیا تھا۔
رئیسی نے کہا کہ “جس چیز نے ایرانی عوام کی کامیابی اور تسلط پسند طاقتوں کو خوفزدہ کیا ہے، وہ اپنی اندرونی طاقت کی بنیاد پر ترقی پر قوم کی توجہ ہے۔”
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں امریکہ اور اسرائیل پر “فسادات” کو ہوا دینے کا الزام لگایا ہے،آج ہر کوئی ان سڑکوں پر ہونے والے فسادات میں دشمنوں کے ملوث ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ “دشمن کی کارروائیاں، جیسے پروپیگنڈہ، ذہنوں کو متاثر کرنے کی کوشش، جوش پیدا کرنا، حوصلہ افزائی کرنا اور یہاں تک کہ آگ لگانے والے مواد کی تیاری کی تعلیم دینا، اب مکمل طور پر واضح ہو چکے ہیں۔”
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ان کی انتظامیہ “ایرانی حکام کو جوابدہ ٹھہرائے گی اور ایرانیوں کے آزادانہ احتجاج کے حقوق کی حمایت جاری رکھے گی۔”
واضح رہے کہ امریکہ نے گزشتہ ہفتے سات ایرانی اہلکاروں پر مظاہروں کو “جبر” میں کردار ادا کرنے پر پابندیاں عائد کی تھیں، ایران نے امریکی رہنما پر نئے اقدامات نافذ کرنے کے لیے انسانی حقوق کی حمایت میں “منافقت” کا الزام لگایا ہے ۔