معیشت کے جادوگر

603

اس دن جوئیلرز اور جم ایسوسی ایشن کراچی کے ایک استقبالیہ میں اسحاق ڈار کو ایک یادداشت پیش کرنی تھی، جس کا ترجمہ کرنے اور اردو میں کمپوزنگ کی ذمے داری مجھے تفویض کی گئی تھی، بھاگ دوڑ کرکے جب میں یہ یاد داشت تیار کرکے ڈیفنس کلب پہنچا تو اسحاق ڈار و ہاں پہنچ چکے تھے، یہ میاں نواز شریف کا دوسرا دور تھا، جس میں وہ انشورنس کے کاروبار کو کسی نہ کسی طرح نجی شعبہ کو دینا چاہتے تھے، ان پر امریکن لائف کا بہت دباؤ تھا، جس کے سبب اسٹیٹ لائف انشورنس کی بیمہ زندگی پر اجارہ داری ختم کی جارہی تھی، اور غالباً یہی موقع تھا، جب حکمرانوں کی اسٹیٹ لائف کے لائف فنڈ پر رال ٹپکنا شروع ہوئی، یہ اربوں مالیت کے اثاثے ہیں، لیکن حکومت کے نہیں ہیں، یہ بیمہ داروں کی امانت ہے، لاکھوں یتیم بچے، بیواؤں، اور بیمہ داروںکی یہ امانت آئندہ 20 تیس سال میں انہیں کلیم، میچورٹی کلیم، حادثاتی اور ایڈیمنٹی کلیمز کی صورت میں ادا ہونی ہے۔ وہاں میں نے آبنوسی رنگت والے اس جادوگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو دیکھا، جس نے آنکھوں میں گہرا کاجل بھی لگایا ہوا تھا۔ آنکھوں سے کاجل چرانا اردو محاورہ ہے، اور ہمارے یہ وزیر خزانہ اس ہنر میں یکتا ہیں۔ ایک اکائونٹینٹ ہی کو یہ مہارت حاصل ہوتی ہے کہ وہ اعداد وشمار سے کھیل سکے، اور وہ اس کھیل میں پوری مہارت رکھتے ہیں۔ انہیں منصب خزانہ سنبھالے ہوئے، چند روز ہوئے ہیں، اور ڈالر ان کے خوف سے کانپ رہا ہے، روپیہ تگڑا ہورہا ہے۔ مخالفین شور مچا رہے ہیں، اور نون لیگی نعرے مار رہے ہیں۔ مہنگائی اور بیروز گاری پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار اب تیسرا مسئلہ سیلاب ہے۔ اوپر سے بجلی کی نرخوں میں اضافے، بڑھتی ہوئی غربت، ٹیکسوں کے اضافی بوجھ، روپے کی قدر میں کمی، کرپشن، اقربا پروری، رشوت اور ملاوٹ، بجلی کی لوڈشیڈنگ، قانون اور انصاف کے نفاذ میں امتیازی سلوک، ریاستی اداروں کی ایک دوسرے کے کام میں مداخلت، کورونا کی وبا اور دہشت گردی نے عوام کو پاگل بنا رکھا ہے۔ ماہرین نفسیات سے پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ ملک میں نفسیاتی مریضوںمیں اضافہ ہورہا ہے۔
ماہر قانون شریف الدین پیرزادہ ضیا الحق کے دور میں قانون و آئین کی موشگافیوں میں یگانہ شہرت رکھتے تھے، اسی لیے انہیں جدہ کا جادوگر کا خطاب دیا گیا تھا، اسحاق ڈار بھی مالیاتی معاملات میں جو ہنرکاری اور فنکاری دکھاتے ہیں، ان کے جوہر بھی کچھ عرصے بعد ہی کھلتے ہیں، انہوں نے سب سے پہلے ڈالر اکائونٹ پر شب خون مارا تھا، اس کا خمیازہ آج تک پاکستان بھگت رہا ہے، بیرون ملک اور پاکستان کے بڑے سرمایہ داربشمول شریف خاندان اور زرداری، اور ملک کی اشرافیہ، تاجر اور صنعت کار آج بھی پاکستان کے بینکوں میں اپنے ڈالر اکائونٹ میں اپنی جمع پونچی رکھنے پر تیار نہیں ہیں۔ اور اپنا زیادہ سرمایہ باہر ہی کے بینکوں میں محفوظ سمجھتے ہیں۔ 2017 میں شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں نیشنل سیکورٹی کی میٹنگ میں قمر جاوید باجوہ نے اسحق ڈار سے ایک سوال پوچھا تھا کہ: ’’ڈار صاحب فنانشل ایکسپرٹ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے بھاری سود پرقرضے لے لیے ہیں، ہم یہ ادا نہیں کرسکیں گے۔ اور ڈار صاحب اس سوال پر خاموش ہوگئے تھے، ڈار صاحب سے ایک اور سوال بھی کیا گیا تھا۔ کیا انہوں نے ویسپا کمپنی سے جو پاکستان میں دو پلانٹ لگانا چاہتی تھی کوئی کمیشن مانگا تھا۔ اس بارے میں قمر باجوہ صاحب سے پاکستان میں اٹلی کے سفیر نے شکایت کی تھی‘‘۔
یہ سوال اب بھی جواب چاہتے ہیں۔ عوام مہنگائی کے مارے ہیں، پٹرول کی قیمت میں کمی، اور ڈالر کے ریٹ میں کمی سے کچھ ریلیف مل گیا ہے۔ لیکن ہمیں یہ سوچ لینا چاہیے کہ شعبدہ گر ہمیشہ آپ کی آنکھ میں دھول جھونکتا ہے، وہ آپ کی توجہ کسی اہم معاملہ سے ہٹا کر، آپ کو وہ دکھاتا ہے، جو حقیقت نہیں ہوتی۔ لیکن آخر میں بھانڈا پھوٹ جاتا ہے، جو حقیقت ہوتی ہے، وہ سامنے آجاتی ہے، ملک کے حالات اور دنیا کے معاملات کسی کے آنے جانے سے نہیں بدلتے، اس کے لیے طویل منصوبہ بندی، اخلاص، سچائی،جیسی صفات اور بلند کرداری، بھی درکار ہوتی ہے، جو لوگ جھوٹ بول کر مقدمات سے فرار ہوتے ہوں، منتخب ہونے کے باوجود چار سال تک حلف نہیں اٹھاتے، اور وزیر اعظم کے طیارے میں فرار ہوتے ہوں، چار سال تک بیماریوں کا ڈھونگ رچاتے رہے ہوں، جھوٹ بول کر عوم کو بیوقوف بناتے ہوں، جعلی اعداد و شمار بنا کر معیشت کو ڈبوتے ہوں، عوام کو سبز باغ دکھاتے ہوں، وہ چند دن میں ملک میں کوئی انقلاب برپا نہیں کرسکتے۔ ایسے جادوگروں سے اللہ بچائے۔