26 ستمبر 1979ء مفسرِقرآن، ممتاز داعی حق، عظیم مفکر و رہنما مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے انتقال کی خبر آئی تو ملک بھر میں اسلامی تحریکوں کے دائرے، علم و تحقیق کے میدان اور عالمِ اسلام میں دکھ، صدمہ اور رنج و غم کا اظہار شروع ہوگیا۔ ملک بھر سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی رہائش گاہ پر، قومی رہنماؤں، علماء، تحریکی کارکنان اور عام الناس کا تانتا بندھ گیا۔ مولاناؒ کی میت امریکا، برطانیہ، سعودی عرب کے راستہ پاکستان (لاہور) پہنچی۔ تمام جگہوں پر مولاناکی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ لاہور میں بھی مولاناؒ کے جنازہ اور تدفین کی تیاریاں شروع ہوگئیں، نیزدنیا بھر سے عالمی اسلامی تحریکوں کے قائدین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں اْن دِنوں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا ناظمِ اعلیٰ اور پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا۔ جماعتِ اسلامی کے ذمے داران ساتھ مہمانوں کی دیکھ بھال، جنازے اور تدفین کے معاملات میںاسلامی جمعیت طلبہ اور اس کے کارکنان کا بھی بھرپور کردار تھا۔ بیرون ملک سے مہمانوں کی آمد کی مسلسل اطلاعات مولانا خلیل حامدیؒ کے ذریعے مل رہی تھیں، دارالعروبہ کے ساتھی مہمانوں کے استقبال کے لیے متحرک اور فعال تھے۔ ائرپورٹ پر بہت اہم مہمانوں کے پروٹوکول کے لیے مجھے بھی کہا جاتا۔ علامہ یوسف القرضاویؒ کی آمد پر خصوصی استقبال کے لیے لاہور ائرپورٹ پر میں بھی موجود تھا، اُن کا بھرپور استقبال ہوا۔ بھرپور، بارُعب اور معتبر شخصیت جو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے انتقال پر غم زدہ اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ نمودار ہوئی۔ میری علامہ یوسف القرضاویؒ کے ساتھ یہ پہلی ملاقات اور پہلا تعارف تھا۔ اُس وقت میری عمر 25/26 سال تھی۔ مولانا خلیل حامدیؒ نے بھرپور انداز میں ان سے تعارف کرایا اور علامہ یوسف القرضاویؒ نے بھی بڑی محبت، شفقت اور وجاہت و بارعب آواز کے ساتھ شفقت فرمائی۔ اُن کی عظمت، شفقت اور شائستہ و بارعب لب و لہجے کا جو نقش دل و دماغ پراس دن قائم ہوا، وہ تمام عمر دل پر نقش رہا۔ جب جب اُن کا نام سنتے، سوشل میڈیاپر کوئی کلپ دیکھتے وہ نقش اُبھر آتا اور ہمیشہ کی طرح ترو تازہ ہوجاتا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے انتقال کے ٹھیک 43 سال بعد 26 ستمبر 2022ء کو علامہ یوسف القرضاوی بھی دْنیا سے رخصت ہوگئے۔ ’’ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘۔ (القرآن) علامہ القرضاویؒ علم و فضل، ایثار و قربانی، عزیمت و استقامت کا کوہ گراں تھے۔ 28 ستمبر 1979ء کو مولانا مودودیؒ کے جنازہ میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ ہوٹل میں کچھ دیر قیام کے بعد جماعت ِ اسلامی کے مرکز منصورہ تشریف لائے لیکن بے چین وبے قرار تھے کہ کسی طرح فوراً اپنے استاد، امام، رہنما مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی رہائش گاہ اِچھرہ پہنچ جاؤں اور مرشد کا دیدار کروں۔ یہ تمام مراحل عزت ووقار، محبت و احترام اور داعی حق کے ساتھ الفت اور لگن کے یادگار لمحات تھے۔ اُن کی اِس محبت کا انعام اللہ تعالیٰ نے انہیں کیا خوب دیا کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی نمازِ جنازہ قذافی اسٹیڈیم میں تیار تھی۔ شنید تھی کہ امامِ کعبہ امام محمد بن سبّیل آرہے ہیں اور وہ نمازجنازہ پڑھائیں گے۔ لیکن اُن کے نہ آسکنے پر نماز جنازہ امامت کی سعادت علامہ یوسف القرضاویؒ کو نصیب ہوئی۔ نمازِ جنازہ میں لاکھوں لوگ شریک تھے اور بلاشبہ یہ تاریخی اور تاریخ ساز نمازِ جنازہ تھا۔ اِس موقع پر علامہ یوسف القرضاویؒ نے مختصر خطاب بھی کیا۔ خطاب کیا تھا خطابت کی شیرینی، قادر الکلامی، جادو بیانی اور مولانا مودودیؒ کی خدمات کے اعتراف اور اُن کے ساتھ اپنی والہانہ نیازمندی کے اظہار نے سماں باندھ دیا۔ نمازِ جنازہ میں اکابر علماء، دینی سیاسی جماعتوں کے رہنما، حکومتی اور سول سوسائٹی کے لوگ سبھی بیک زبان کہہ رہے تھے کہ شیخ قرضاوی ؒ نے مولانا مودودیؒ کے جنازہ کی امامت کا حق ادا کردیا۔
موت العالِم موت العالَم ۔۔۔ علامہ یوسف القرضاویؒ سے قطر، سعودی عرب، رابطہ عالمِ اسلامی، شباب العالمی، برطانیہ اور عرب امارات کی کانفرنسوں میں باربار ملاقات ہوئی، زیارت اور نشستوں کا موقع ملتا۔ میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، مولانا خلیل حامدیؒ، عبدالغفارعزیزؒ کے ہمراہ ہر بارکی ملاقات کچھ دے جاتی،جس میں جذبہ ہمت حوصلہ اور علم کے پھول بھی ہوتے اور علامہ یوسف القرضاوی ؒ جماعتِ اسلامی اور مولانا مودودیؒ کی فکر، تنظیم و تربیت، نصب العین اور طریقہ کار کے قائل اور شیدائی بھی تھے اور اُن کی تمنا و خواہش اور والہانہ لگاؤ تھا کہ پاکستان، جو اسلامی جمہوریہ ہے، یہاں غلبہ دین کی راہیں کھلیں گی تو عالمِ اسلام اِس سے مستفید ہوگا۔ اِسی لیے ہر کانفرنس، ہر نشست، ہر ملاقات میں ان کا یہ جذبہ محسوس ہوتا۔ علامہ یوسف القرضاویؒ کی پاکستانی عوام کے دینی جذبہ اور جماعتِ اسلامی سے بڑی توقعات تھیں، انہوں نے خود بھی ساری زندگی اعلائے کلمۃ اللہ، غلبہ حق، قرآن و سنت کی دعوت کو عام کرنے، خصوصاً سیکولر ازم، اباحیت، مغربی تہذیب اور باطل نظام کی بیخ کنی کی جدوجہد جاری رکھی۔
علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاویؒ کی ولادت 9 ستمبر 1926ء کو مصر کے محافظہ غربیہ کے مرکز المحلہ الکبری کے ایک گاؤں ’’صفط تراب‘‘ میں ہوئی۔ ابھی دو سال کے تھے کہ ان کے والدِگرامی وفات پاگئے۔ اس کے بعد ان کی کفالت و پرورش کی ذمے داری ان کے چچا نے انجام دی۔ دورِ جوانی ہی سے وہ شیخ حسن البناء شہید کی شخصیت اور دعوت سے متاثر تھے اور یہی وجہ ہے کہ امام حسن البناءؒ سے والہانہ لگاؤ اور محبت رکھتے تھے۔ اعلائے کلمۃ اللہ، تائیدِ و حمایت ِ حق اور باطل کی سرکوبی کی جدوجہد کرتے رہنے کا عہد زندگی کی آخری سانس تک نبھایا ہے۔ اس راہ پُرخار میں قید و بند اور ایذا و تعذیب کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، لیکن ان کے پائے استقامت میں ذر ابھی لغزش اور لرزش نہیں آئی اور وہ مجسم استقامت بنے رہے۔ اخوان المسلمون سے وابستگی کی بناء پر وہ پہلی بار 1949ء کے مصری شاہی دور میں 23 برس کی عمر میں گرفتار ہوئے۔ پھر جمال عبدالناصر کے دورِ سیاہ میں بھی 3 بار جیل جانا پڑا: پہلے جنوری 1954ء میں، پھر اِسی سال نومبر میں دوبارہ حراست میں لیے گئے اور 20 ماہ تک قید میں رہے اور پھر 1963ء میں تیسری بار۔ 1961ء میں وہ قطر چلے گئے جہاں کچھ عرصہ بعد انہیں قطری شہریت سے بھی نوازا گیا۔ 1977ء میں قطر یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے اور اپنی علمی خدمات سے نام پیدا کیا۔ اخوان المسلمون کی قیادت نے انہیں مختلف مناصب، یہاں تک کہ مرشدِ عام (سب سے اونچے منصب) کی پیشکش بھی کی لیکن انہوں نے یہ سب قبول کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہیں اس لیے خود کو ان مناصب کا اہل نہیں سمجھتے اور خود کو علمی کاموں کے لیے وقف کیے رکھا ہے۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کوششوں سے ایک زمانے میں ندوۃ العلماء میں عالمِ عرب کے بڑے بڑے شیوخ بطور ویزیٹنگ پروفیسرز خدمات سرانجام دیتے تھے اور علومِ اسلامیہ کے فنی موضوعات پر لیکچر دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر یوسف القرضاویؒ بھی ان اصحابِ علم و فکر میں شامل تھے۔ ایک مرتبہ دورانِ لیکچر عالمِ اسلام کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے دینی تنظیموں اور شخصیات کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے دوران اخوان المسلمون پر کیے گئے بدترین، تشدد انتہائی وحشیانہ اور گھناؤنے بلکہ انسانیت سوزمظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے جوشِ خطابت میں آب دیدہ ہوگئے اور اُن کی آواز بھرا گئی۔
ڈاکٹر القرضاویؒ مظلوم فلسطینیوں کی جدوجہد کے بہت بڑے حامی تھے۔ انہوں نے کھلے الفاظ میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی درندگی اور فلسطین پر ناجائز صہیونی قبضہ کی ہمیشہ مذمت کی۔