علامہ یوسف القرضاوی: عالم اسلام کا دمکتا ستارہ

541

عالم اسلام کے معروف عالم دین مذہبی رہنما یوسف القرضاوی 9 ستمبر 1926ء میں مصر کے ایک گائوں ’’صفط تراب‘‘ میں پیدا ہوئے اور 26 ستمبر 2022ء میں 96 برس کی عمر میں قطر میں انتقال کرگئے۔ انہوں نے مصر میں اپنی تعلیم مکمل کی، وہ 10 سال کی عمر میں قرآن حفظ کرچکے تھے، جامعہ ازہر میں داخلے کے بعد ہر تعلیمی امتحان انتہائی اعلیٰ درجہ میں پاس کیا۔ یوسف القرضاوی یتیم تھے، جب وہ 2 سال کے تھے تو اُن کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ اُن کی کفالت کی ذمے داری اُن کے چچا نے انجام دی۔ یوسف القرضاوی ابتدا سے اخوان المسلمون کی سرگرمیوں میں شامل رہے۔ اُن کا شمار صف اوّل کے نظریہ ساز رہنمائوں میں ہوتا ہے، انہوں نے 120 سے زیادہ کتابیں اور 60 کے قریب کتابچے تحریر کیے۔ مسلم دُنیا کے وسیع حصہ تک اُن کی کتابوں نے اثرات ڈالے۔ موجودہ دور کے وہ یقینا سب سے بڑے بااثر مسلم رہنما تھے، جن کی تعلیمات کسی ایک مکتب فکر تک محدود نہیں تھیں۔ شیخ علامہ یوسف القرضاوی اگرچہ مصر میں پیدا ہوئے تھے لیکن انتقال سے پہلے چار دہائیوں سے قطر میں مقیم تھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ اخوان المسلمین سے وابستہ تھے۔ انہوں نے عملی جدوجہد میں حصہ لیا جس کے باعث ان کو 1950ء میں سب سے پہلے جمال عبدالناصر نے گرفتار کیا، رہائی کے بعد 1960ء میں قطر کی یونیورسٹی میں فیکلٹی آف شریعہ کے ڈین کے طور پر خدمات کی ادائیگی کے بعد قطر روانہ ہوئے اور اسی بنیاد پر انہیں 1968ء میں قطری شہریت دے دی گئی، جہاں وہ آخری وقت تک مقیم رہے۔
مصر میں انقلاب کے بعد 2011ء میں نے تحریر اسکوائر میں لاکھوں لوگوں کے اجتماع سے خطاب کیا تھا جہاں انہوں نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’’انقلاب کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی تو مصر کی تعمیر کا آغاز ہوا ہے، لہٰذا اپنے انقلاب کی حفاظت کرو اس کو ان منافقوں کے ہاتھوں چوری نہ ہونے دو جنہوں نے اپنا مکروہ چہرہ چھپایا ہوا ہے‘‘۔
مصر کے منتخب اسلام پسند صدر مرسی جمہوریت کے ذریعے کرسی صدارت پر بیٹھے تھے لیکن فوجی حکمران جنرل سیسی نے ان کو معزول کرکے جیل میں ڈال دیا اور حکومت پر قبضہ کرلیا۔ یہ قبضہ آج تک ہے اس کے خلاف علامہ قرضاوی نے اس فوجی انقلاب کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا تھا اور انہوں نے ہی نہیں دنیا بھر کے علما و مشائخ نے اس کے خلاف فتویٰ دیا تھا، صرف سعودی عرب کے 56 علما نے اس کے لیے مذمتی بیان دیے تھے لیکن جنرل سیسی نے اپنی حکومت قائم رکھی اور منتخب صدر مرسی جیل میں انتقال کرگئے۔ جنرل سیسی کی آج تک حکومت اسی لیے قائم ہے کہ مغرب اور یہود نواز حکمرانوں نے اس کی حمایت بھی کی اور درپردہ مدد بھی کی۔ جس سے ان کی جمہوریت نوازی کا پردہ چاک ہوا۔ جنرل سیسی کی مصری عدالت نے جنوری 2018ء میں علامہ یوسف القرضاوی کو ان کی عدم موجودگی میں عمر قید کی سزا سنائی اور اس کے تین دن بعد ان کی صاحبزادی علا اور ان کے شوہر کو گرفتار کرلیا۔ اس وقت علا کی عمر 56 اور ان کے شوہر کی عمر 58 سال تھی۔ علا کو گرفتار کرکے ایک شیشے کے پنجرے میں قید کردیا گیا تھا اس حالت میں انہیں اپنے وکیل سے بات کرنے تک کی اجازت نہیں تھی۔ انہیں مسلسل 275 دن قید تنہائی میں رکھا گیا جہاں ان کی حالت انتہائی تشویش ناک ہوگئی تھی۔ اُس وقت علامہ قرضاوی نے اپنی بیٹی کے نام خط لکھا جس میں انہوں نے کہا میری پیاری بیٹی تم پر میرا دل نثار ہے۔ تمہاری قید کو سو دن سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ ان سرکشوں کی قید میں رہتے ہوئے ایک دن ایک برس کے برابر لگتا ہے۔ مگر تسلی رکھو اللہ نے چاہا تو ظلم کے یہ دن بھی ختم ہوں گے۔ تم اپنے گھر اور بچوں کے درمیان لوٹو گی اور اللہ کی رحمت کی تم پر بارش ہوگی۔ تسلی رکھو تمہارا رب اُن کے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے اور ظالموں کو ضرور معلوم ہوجائے گا کہ انہیں کس انجام سے دوچار ہونا ہے۔ یوسف القرضاوی نے اپنی تنظیم ’’اتحاد عالمی برائے علما و مسلمین‘‘ کی جانب سے بھارت کے اقتصادی بائیکاٹ اور کشمیر پر بھارت کے مظالم کے خلاف پرزور آواز بلند کی تھی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو جمعہ کے خطبات میں موضوع بحث بنانے کی اپیل کی تھی، وہ عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور دوستی کے سخت مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عرب اسرائیل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں مگر بعض عرب حکمران صہیونیوں سے دوستی پر رضا مند ہیں۔ حالاں کہ یہ دوستی نہیں بلکہ ان کی غلامی کی قبولیت کا اعلان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ پوری امت مسلمہ کا مقدس مقام ہے اس کا دفاع اور حفاظت سب کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ وہ کہتے تھے کہ انہیں قبلہ اوّل کے دفاع کے لیے فلسطین میں شہادت کی سعادت حاصل کرنے کی آرزو ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ یوسف القرضاوی کی موت پوری امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم نقصان ہے، وہ اسلامی علوم کے انسائیکلو پیڈیا تھے، اس لیے حماس کے رہنما خالد مشعل نے اُس موقع پر کہا تھا کہ میں پوری امت مسلمہ کے ساتھ علامہ یوسف القرضاوی کے انتقال پر تعزیت کرتا ہوں۔