قصور تو پروموٹرز ہی کا ہوگا ناں

652

جاپان کے پہلوان انوکی، 79 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے، یوں پہلوانی کا ایک باب بھی بند ہوگیا، 79 سال کی عمر میں انتقال کرنے والے انوکی جاپانی سیاست کا بھی حصہ رہے اور شمالی کوریا سے امن مذاکرات کے لیے انہوں نے 30 سے زیادہ دورے کیے۔ 1943 میں پیدا ہونے والے کانجی انوکی نے برازیل میں 17 سال کی عمر میں اپنا پروفیشنل نام ’انٹونیو انوکی‘ رکھا اور پہل مقابلہ کیا کیڈوزان نامی ’جاپانی بابائے ریسلنگ‘ نے ان میں چھپا جوہر تلاش کیا، انوکی ایک معروف پہلوان تھے تاہم ان کی شہرت اس وقت پھیلی جب وہ مقابلے کے لیے عظیم مسلمان باکسر محمد علی کے مقابلے میں اُترے اور یہ مقابلہ تیکنیکی اعتبار سے برابر رہا، اس کے بعد انہیں لاہور کے گاما پہلوان رستم زمان خاندان کے سپوت اکرم عرف اکی نے چیلنج دیا، یہ مقابلہ انوکی نے جیتا اس کے بعد اکی کے بھتیجے زبیر عرف جھارا میدان میں اترے اور انوکی کو شکست دی، انوکی کے خلاف میچ کھیلنے کے لیے محمد علی کلے کو 60 لاکھ ڈالر تک کی آفر ہوئی علی نے یہ میچ کھیلا کیوں کہ وہ ان دنوں ازدواجی زندگی کے مسائل سے گزر رہے تھے اور طلاق کی صورت میں بڑی رقم ان کے ہاتھ سے چلی جانی تھی وہ اس وقت اسلام قبول کرکے امریکا میں اسلام کی ترویج کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے لیے بھی کام کرتے تھے جن میں نیشن آف اسلام (افریقن امریکی مسلمانوں کی ایک سیاسی تنظیم کا نام نمایاں ہے۔
دراصل انوکی سے یہ میچ کھیل کر محمد علی اپنے مالی مسائل کا حل چاہتے تھے، یہ مقابلہ 1976 میں ہوا تھا، محمد علی باکسر تھے، مگر یہ مقابلہ تو پہلوانی طرز پر تھا، انٹونیو انوکی ایک فری اسٹائل ریسلر تھے اور محمد علی کلے باکسر، بہر حال دونوں کا جوڑ پڑا، اور مقابلہ برابر رہا، یہ مقابلہ امریکا اور جاپان کے مابین بھی گنا اور سمجھا گیا اسے دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں دیکھا جارہا تھا، یوں اس مقابلے کی اہمیت بہت واضح تھی، مقابلے کے لیے اصول بھی نئے تھے مخالف کے جبڑے پر مکا نہیں مارنا اور سر پر لات نہیں مارنی، مگر پورا مقابلہ ’low kick‘ کے گرد گھومتا رہا، یہ بڑا یہ عجیب منظر تھا، ایک جانب باکسر دوسری جانب پہلوان، اس مقابلے کی کوئی تک تھی نہ جوڑ، یہ بہت عجیب مقابلہ تھا پورا مقابلہ اس طرح ہوا کہ انوکی زمین پر لیٹ کر محمد علی کا مقابلہ کرتے رہے اور محمد علی انہیں ’مردانگی کے طعنے‘ دے دے کر اٹھنے کے لیے کہتے رہے، انوکی اٹھتے تو انہیں محمد علی کلے کے مکوں انہیں پھر نیچے گرا دیتے لیکن انوکی نے 70، 80 ککس ماریں، 15 راؤنڈز کے بعد مقابلہ برابر قرار دے دیا گیا علی جیتے نہ انوکی، نقصان بہرحال علی کو ہوا۔
بے شک سمجھ میں نہیں آیا ہو گا کہ یہ میچ تھا کیسا؟ محمد علی کو مسلسل اپنی ٹانگوں پر لاتیں (Low Kicks) سہنا پڑیں اور ایک ایسا کھلاڑی جس نے پنڈلیوں تک کسے ہوئے سخت باکسنگ شوز پہنے ہوں، یہ اس کے لیے شدید تکلیف دہ تھیں، میچ کے بعد لاکر روم میں محمد علی تکلیف کی وجہ پریشان تھے سوج کر ان کی ٹانگیں دوگنے سائز کی ہو گئی تھیں اگلے دن علی نے پریس کو بیان دیا: ’میں ہرگز یہ لڑائی نہ لڑتا اگر مجھے علم ہوتا کہ انوکی کو سارے مقابلے میں لیٹے رہنا ہے، انوکی نے اقرار کیا کہ ’میں نے جیتنے کی پوری کوشش کی اگر میں لیٹے رہنے کے بجائے کھڑا ہو جاتا اور علی سے مار کھاتے ہوئے ہار جاتا تو تماشائیوں کے لیے بہرحال وہ منظر زیادہ پرجوش ہوتے۔
یہ مقابلہ علی اور انوکی میں ساری زندگی کی دوستی بھی کروا گیا انوکی نے 1998 میں جب اپنا آخری ریسلنگ میچ کھیلا تو محمد علی کلے ان کے اعزاز میں وہاں موجود تھے، انوکی پاکستان بھی آئے کہ انہیں اکرم عرف اکی پہلوان نے چیلنج دیا تھا اس مقابلے میں اکی کو شکست ہوئی انوکی نے ان کا کندھا ہی اُتار دیا، اکرم پہلوان سے ہونے والا میچ بھی سبق آموز تھا کہ انسان کو اپنے خاندانی نام پر نہیں اِترانا چاہیے انوکی اکرم پہلوان سے اس کی اپنی شرطوں پہ لڑا اور ڈبل رسٹ لاک کے داؤ سے ان کا بازو توڑ دیا، ’اکی پہلوان اور انوکی کا مقابلہ ہی کوئی نہیں بنتا تھا اس وقت اکی پہلوان پچاس سال کی عمر کے آس پاس تھے ذیابیطس کے مریض تھے انہیں تو مال کمانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، اکی کو یہ کہا گیا تھا کہ مقابلہ برابر کیا جائے گا، مگر کندا اتر جانے پر انہیں اور مقابلہ دیکھنے والوں بہت شرمندگی ہوئی اکی پہلوان اگر جوانی میں انوکی سے لڑتا تو اسے اٹھا کے ٹوکیو پھینک دیتا، لیکن وقت وقت کی بات ہوتی ہے، اگر آج کوئی اگر 70 سال کی عمر میں جوان کہلائے اور کام بھی نہ کرسکے تو اس میں قصور کس کا ہے، قصور تو پروموٹرز کا ہی ہوگا ناں