حکمران قوم کا قرض کب اتاریں گے؟؟

680

بورڈ آف پرائیوٹائزیشن کمپنی کا اجلاس وزیر برائے نجکاری عابد حسین بھایوں کی زیر صدارت ہوا۔ بورڈ کو این پی پی ایم سی ایل ٹرانزیکشن کی موجودہ صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ یہ ادارہ نجکاری کی فہرست میں شامل بڑے سرکاری اداروں (ایس او ای) میں سے ایک ہے، وزیر نجکاری عابد حسین بھایو نے فرمایا کہ حکومت بجلی کے شعبے میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری اور مہارت سے استفادے کے لیے پرعزم ہے۔ جون میں کابینہ کمیٹی برائے نجکاری نے اسٹیک ہولڈرز کی ذیلی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں وزارت خزانہ، وزارت توانائی، پی سی اور این پی پی ایم سی ایل کے ارکان شامل کیے گئے تھے تا کہ نجکاری کے معاملات کو جلد از جلد حل کیا جاسکے۔ 2020ء میں وبائی امراض کورونا کی وجہ سے نجکاری کے متعلق جاری معاملات شدید متاثر ہوئے جب کہ مشرق وسطیٰ، چین، جاپان، کوریا، جنوب مشرقی ایشیا، یورپ اور پاکستان سمیت دنیا بھر سے 12 پارٹیاں پری کوالیفائی کرچکی تھیں۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری پری کوالیفائیڈ اہل سرمایہ کاروں کی جانب سے سائٹ کے دوروں اور خریداروں کی طرف سے تکمیل کے قریب پہنچ چکی تھی۔ ممکنہ سرمایہ کاروں نے پاکستان میں دو ہفتے اسلام آباد میں اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقات اور پی ایس ایم سائٹ کا دورہ کرنے میں گزارے۔ بورڈ کو ایس او ای کی نجکاری کی پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔ سندھ انجینئرنگ لمیٹڈ اور پاکستان انجینئرنگ کمپنی کے ساتھ مختلف مسائل کو حل کرنے کی حکمت عملی پر پی سی بورڈ کی منظوری طلب کی گئی جنہوں نے اپنی نجکاری کا عمل روک دیا ہے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ایس ای ایل بورڈ کی تشکیل اور مستقل ایم ڈی کے تقرر سے نجکاری سے متعلق ضروری فیصلوں پر عملدرآمد ممکن ہوسکے گا اور اتفاق رائے سے باہمی طورپر فیصلہ کیا گیا کہ پی سی جے سی سی کے لیے قابل عمل پلان تشکیل دیا جائے۔
نجکاری کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت ان اداروں کو چلانے، سنبھالنے اور جدید دور کی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہورہی ہے یا پھر یوں سمجھ لیں کہ قوم کی خون پسینہ کی آمدن سے ملک میں جو قیمتی ادارے قائم ہوئے اب اُن کو بیچ کر گزارہ کرنے کی صورت کے سوا لوٹ اور کمائی کا کوئی اور طریقہ کار بچا نہیں۔ اور یوں یہ ادارے نجکاری کرکے جان چھڑانے اور کمائی کرنے کا آخری حربہ بچا ہے۔ جملہ تو معترضہ ہے کہ یہ کہیں ہوس زر میں ملک کی نجکاری نہ کردیں جو ویسے بھی آئی ایم ایف کے پاس گروی تو کردیا گیا ہے۔ نجکاری کا دھندہ وتیرہ بن گیا ہے۔ عدالت کے بقول چین ایکویٹی کی بنیاد پر سرمایہ کاری کے لیے تیار تھا مگر ہم تیار نہ ہوئے۔ کینیڈا اور جاپان نے پاکستان کو پیشکش کی تھی کہ اپنی ریلوے پانچ سال کے لیے ہمیں دے دو پھر استعمال کرو، یہ بھی ایکویٹی کی بنیاد پر تھی مگر عیش خور حکمرانوں نے مان کر نہ دیا کہ ہمارا کمیشن کہاں جائے گا۔ مال کمانے کے لیے جان چھڑانے کی بات ہے اور اس اثاثے بیچو اور مال کمائو والی پالیسی حکمرانوں کی ملک کی جڑوں میں بیٹھ رہی ہے۔ ملک ہمارا اور ملکیت دوسرے کی یہ دو رنگی کہیں کا بھی نہیں چھوڑے گی۔
برسات کی تباہ کاریوں کو جواز بنا کر قیمتی اثاثوں کی فروخت کا منصوبہ بنالیا گیا۔ وفاقی حکومت نے رواں مالی سال میں 4 سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کرلیا ہے جن میں آر ایل این جی پر چلنے والی حویلی بہادر شاہ اور بلوکی پاور پلانٹس سرفہرست ہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق ہائوس بلڈنگ فنانس کمپنی کی نجکاری مارچ 2023ء تک کی جائے گی جب کہ فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ کی نجکاری جون 2027 میں متوقع ہے۔ نجکاری میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے بعض اداروں کا خصوصی آڈٹ کیا جائے گا۔ سوئی گیس سدرن کمپنی، حیسکو پیسکو کا بھی خصوصی آڈٹ ہوگا۔ اداروں کی کارکردگی میں بہتری کے لیے سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ قائم کیا جائے گا اور یہ یونٹ وزارت خزانہ میں جنوری 23ء تک فعال ہوگا۔ جب کہ باخبر ذرائع اطلاع دے رہے ہیں کہ امکان ہے کہ وفاقی حکومت اسلام آباد انٹرنیشنل ائر پورٹ کے انتظامی یونٹ قطر کے حوالے کرنے کی تیاریوں میں ہے۔ ایک قطری کمپنی ائرپورٹ کے ٹرمینل اور کارگو کی متعلقہ خدمات فراہم کرے گی جس میں بہت زیادہ ترقی کی گنجائش ہے۔ جب نیویارک میں پی آئی اے کی ملکیت والا روز ویلٹ ہوٹل کے 51 فی صد حصص کی فروخت کا بھی بہت زیادہ امکان ہے۔ اس سے قبل یہ اطلاعات بھی تھیں کہ پاکستان قطر کو اپنے جدوجہد کرنے والے فلیگ شپ کیریئر میں اکثریتی حصص کو پیش کرسکتا ہے۔ تاہم قطر نے صرف ہوائی اڈے اور ہوٹل کے شعبوں میں اپنی دلچسپی طاہر کی۔ ماہ مارچ 22ء میں یہ خبر بھی منظر عام پر آئی کہ پاکستان اسٹیل مل کراچی کی 18 ہزار ایکڑ اراضی میں سے 2 ہزار ایکڑ جس کی مالیت کی زمین
فروخت کرنے کی اور قرض اتارنے کی تیاریاں ہیں اسٹیل مل کے پاس 190 ہزار ایکڑ زمین مختص شدہ ہے۔ جس میں سے 60 ہزار ایکڑ پر اسٹیل مل کے 40 سے زائد کارخانے لگے ہوئے ہیں جو جون 2015ء سے بند پڑے ہیں۔ وفاق کی ضمانت پر نیشنل بینک آف پاکستان بھاری سود پر اس ادارے کو قرض دیتی رہی جو بڑھ کر 700 ارب روپے سے زائد ہوگیا ہے۔ عمران خان حکومت میں 2018ء دسمبر 2021ء تک پاکستان اسٹیل مل کو 44.48 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اور قرض میں 96.61 ارب روپے کا اضافہ ہوا اور پیداواری صلاحیت جو گیارہ لاکھ ٹن ہے وہ ایک لاکھ ٹن سالانہ بھی نہ دے سکا۔ 70 ہزار ملازمین کو جبری سبکدوش کیا گیا اور یوں بوجھ ہلکا کرنے کی تدبیر کی۔
پاکستان اسٹیل مل کے اسٹیک ہولڈر عزیز خان نے الزام لگایا کہ مل کے رہائشی منصوبہ کے لیے مختص زمین گلشن حدید فیز 4 پر قبضہ کرائے گئے اور سندھ حکومت نے صرف رجسٹرار کو ایک خط لکھ کر مل کی زمین کی رجسٹری نہ کرنے کا کہا ہے۔ 90 ہزار ایکڑ پر PIDC ساڑھے سات ہزار ایکڑ پر انڈسٹریل ٹائون شپ 15 سو ایکڑ زمین پر اسٹیل اکنامک زون بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ ادارہ 12 ارب ڈالرز کا مقروض ہوگیا۔ اب سوئی سدرن گیس کمپنی، کے الیکٹرک، واٹر بورڈ کی ادائیگی کے لیے اسٹیل مل کی زمین کی فروخت کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ زمین کے نرخ فی ایکڑ 9 کروڑ روپے سے بھی زائد بتائے جاتے ہیں۔ 20 ہزار ایکڑ ان اداروں کو اونے پونے بیچنے کی تیاریاں بیرونی قرض دینا ہے اندرون قرض اتارنا ہے تو قیمتی اثاثے فروخت کردو نظریہ پاکستان جو قوم کا قرض ہے حکمران کب اتاریں گے۔