سرور کونینؐ دن بھر لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتے،کفار مکہ آپؐ کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتے۔ شام کوجب تھکن سے چور بدن کے ساتھ آپؐ گھر واپس تشریف لاتے تو پیاری بیٹی فاطمہ ؓ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے آپؐ کا سر اور پائوں مبارک دھوتیں اور آپؐ کی ساری تھکن دور ہوجاتی۔ آپؐ ننھی فاطمہؓ کی پیشانی کو چومتے اور ہاتھوں کو بوسہ دیتے۔ ہر گھر میں ایک فاطمہ پورے گھر کی محبتوں کا مرکز ہوتی ہے اس کی وجہ سے گھر میں رونق ہوتی ہے، اس کی معصوم ادائوں اور توتلی باتوں سے افسردہ چہروں پر مسکراہٹ اور رونق لوٹ آتی ہے۔ اس کی معصومیت بھری باتوں کو سننے، پیاری پیاری شرارتوں اور ادائوں کو دیکھنے کے لیے سارا دن بے چین رہنے والے باپ اور بھائی جلدی گھر واپس آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ باپ گھر پہنچتے ہی جب بیٹی کو گود میں اٹھاتا ہے تو دن بھر کی تھکاوٹ بھول جاتا ہے۔
گلگت بلتستان کے سیلاب زدہ علاقے غذر کے متاثرین کے کیمپ میں مجھے ایک ننھی فاطمہ سے ملوایا گیا جو ماں کی گود میں فیڈر سے دودھ پی رہی تھی کہ آناً فاناً آنے والے سیلابی ریلے نے اس کی والدہ اور پانچ سالہ بھائی کو سنبھلے کا موقع نہیں دیا اور تینوں کو اپنے ساتھ بہاکر لے گیا، ہنستے مسکراتے بچے ماں کے ساتھ لپٹے چند لمحوں ہی میں نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ فاطمہ کے والد اور درجنوں لوگ پانی کے ساتھ ساتھ ایک کلومیٹر تک بھاگتے رہے اور آخرکیچڑ میں لت پت دوسالہ فاطمہ کو نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ بچی کے منہ ناک، آنکھوں اور کانوں میں سیلاب کا زہریلا پانی اور کیچڑ تھا۔ باپ اور دوسرے لوگوں نے بڑی احتیاط کے ساتھ گارے کو صاف کیا اور منہ دھویا۔ فاطمہ نے حرکت شروع کی، آنکھیں کھولیں اور پھر اپنے باپ کے ساتھ چمٹ گئی۔ کچھ لمحوں بعد رونے لگی اور باپ سے اپنی ماں اور دودھ کا فیڈر مانگنے لگی۔ بچی کو کیا معلوم کہ اس کی ماں ہمیشہ کے لیے اس کو چھوڑ کر چلی گئی ہے اور دودھ کی بوتل سمیت سارا گھر اور بھائی بھی سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں۔ اب اس کا بھائی کبھی اس کے ساتھ نہیں کھیلے گا۔ غم کی تصویر بنا باپ ہی اس کی کل کائنات ہے۔ میرے بلانے پر فاطمہ لپک کر میرے پاس آگئی اورگود میں بیٹھ کر میرے ہاتھ میں پکڑے کاغذوں اور قلم سے کھیلنے لگی۔ کچھ لمحوں کے لیے ان کھلونوں سے اس کا دل تو بہل گیا مگر اتنے دن گزر گئے میری آنکھوں سے اس کا معصوم چہرہ اوجھل نہیں ہو رہا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ جب ہر صبح وہ ماں سے ملنے کی ضد کرتی ہوگی تو باپ کے دل پر کیا قیامت گزرتی ہوگی؟۔
گلگت بلتستان ہی میں شیر قلعہ سے آگے بوبر کے متاثرین کے کیمپ میں مقیم ہمارے ایک دوست کے والدین اور بیوی بچوں سمیت گھر کے آٹھ افراد اور گھر سب کچھ سیلاب کی نذر ہوگیا، سیلابی ریلا آیا اور آناً فاناً گھر ملیا میٹ ہوگیا۔ اس طرح کی کتنی ہی قیامتیں کتنے لوگوں پر گزر گئی ہیں مگر حکمرانوں کے سینے میں شاید دل نہیں! میں نے گلگت بلتستان کا تین روزہ دورہ کیا۔ کراچی سے چترال اور جی بی تک کے لوگوں کا ایک ہی گلہ ہے کہ سیلاب کے دوران حکومتوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا، ہمیں پانی کے ریلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ وزیر اعظم نے گلگت بلتستان گئے مگر سیاسی نفرتوں کی وجہ سے وزیر اعلیٰ سے ملے بغیر واپس آگئے۔
ایک طرف اسلام آباد میں جاری ایک تماشا ہے اور دوسری طرف تین کروڑ تیس لاکھ متاثرین کے مسائل ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہم دست و گریبان ہیں۔ ان کے بیانات سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ غریب قوم کے 34لاکھ بچے گھروں کی چھتوں سے محروم ہیں، دس لاکھ مکانات گر گئے ہیں۔ 34لاکھ ایکڑ زرعی زمین پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ حکومت اب تک متاثرین کو فیملی ٹینٹ بھی مہیا نہیں کرسکی۔ ہماری قوم دنیا کی بہادر ترین قوم ہے جس نے سرکاری اداروں کا انتظار کیے بغیر جو کچھ ان کے بس میں تھا اپنی مدد آپ کے تحت کیا۔ متاثرین کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔ انصارمدینہ کے ایثار اور قربانی کی یادیں تازہ ہوگئیں۔
خیمہ بستیوں میںگندے پانی کی وجہ سے پیٹ اور سانس کی بیماریاں پھیلنے سے صورتحال انتہائی گمبھیر ہوچکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 6لاکھ حاملہ خواتین ان کیمپوں میں مقیم ہیں۔ آنے والے مہمان پاکستانیوں کے لیے جھولا ہے نہ دودھ کی بوتل۔ ان کی مائیں کھلے آسمان تلے وبائی امراض کا شکار ہورہی ہیں ان کے لیے فرسٹ ایڈ کا کوئی انتظام نہیں۔
آنے والے دنوں میں قحط سے بچنے کے لیے زرعی ایمرجنسی کی ضرورت ہے۔ ان تباہ حال کسانوں کے لیے حکومت نے بیج، کھاد اور گندم کی کاشت کے لیے ٹریکٹرز کا انتظام سرکاری سطح پر نہ کیا تو لاکھوں ایکڑ اراضی پر فصل کاشت نہیں ہوسکے گی۔ حکومت کسانوں کے قرضے اور آبیانہ معاف کرے اور غیر سودی قرضے دیکر ان کے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دے۔ حکومت کے پاس جو کچھ بھی ہے فوری کسانوں میں تقسیم کرے، محض وعدوں اور دعوئوں سے ان کی مشکلات اور مسائل حل نہیں ہوں گے۔
حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے تباہ ہونے والی سرکاری عمارتوں کی مرمت اور تعمیر کرے، بلاشبہ یہ اچھی سوچ ہے مگر اس سے متاثرین کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس وقت متاثرین کو چھت، کھانے پینے کے سامان، سردیوں کے کپڑوں، کمبلوں اور رضائیوں کی اشد ضرورت ہے مگر حکومت کے پاس ابھی تک کوئی ڈیٹا اور ایکشن پلان نہیں ہے۔ گاہے گاہے حکومتی نمائندوں کی کرپشن کے قصے اور شکایات سننے کو مل رہی ہیں۔ ان کا فوری ازالہ ہونا ضروری ہے جس کا بہترین حل یہ ہے کہ امدادی سامان اور سرکاری امدادوزیر وں مشیروں، ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ہاتھوں میں دینے کے بجائے متاثرین اور اہل علاقہ کی کمیٹیاں بنا کر ان کی نگرانی میں تقسیم کی جائے۔
حکومتوں کو اپنے اختلافات پس پشت ڈالتے ہوئے مل بیٹھ کر فاطمہ جیسی لاکھوں بیٹیوں کے لیے عملی منصوبہ بنا نا چاہیے یہ ان کے منصب کا تقاضا بھی ہے اور اخلاقی ذمے داری بھی۔ اگر ہم نے اپنی اس ذمے داری سے غفلت برتی تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔