پاکستان کی 75سالہ تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے (1) پاکستان بنانے والے (2) پاکستان کو کھانے والے، پہلے دور میں پاکستان کے حکمراں وہ لوگ تھے جنہوں نے دن رات جدوجہد اور ہر قسم کا ایثار کر کے پاکستان بنایا تھا۔ دوسرا دور اُن شہزادے حکمرانوں کا تھا جنہیں بنی بنائی مملکت اور سلطنت ملی۔ انہوں نے قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کیا، عیاشیوں کے نئے نئے ریکارڈ قائم کیے اور وزیر اعظم ہائوس کا سالانہ خرچ اربوں تک جا پہنچا۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اوّل تو آپ ان حکمرانوں کی شاہ خرچیوں سے واقف ہیں۔ دوم مقصد آپ کو تاریخ کی جھلک دکھانا ہے تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہمارے حکمرانوں نے کس طرح سادگی اور کم خرچ کی روایات قائم کی تھیں پھر خدا جانے یہ ریل کہاں پٹڑی سے اُتری۔ قائد اعظم قومی خزانے کے تقدس کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ خلفائے راشدین کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ آج پہلے دو وزرائے اعظم کی سرکاری زندگی کی جھلک دیکھیے۔ اوّل لیاقت علی خان جو 15اگست 1947ء سے 16اکتوبر 1951ء تک وزیر اعظم رہے۔ بہت بڑے نواب تھے۔ کیمبرج یونیورسٹی میں حصول تعلیم کے لیے گئے تو ذاتی باورچی اور خدمت گار بھی ساتھ تھے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قومی زندگی کا آغاز انتہائی سادگی سے کیا تھا۔ 1958ء تک قومی خزانے کی ایک ایک پائی کو قومی امانت سمجھ کر کنجوسی سے استعمال کیا جاتا تھا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ پہلے گیارہ سال کے دوران وزیراعظم ہائوس کا سالانہ خرچ بعد کے وزیر اعظم ہائوس کے دو ہفتے کے خرچ سے بھی کم ہوتا تھا۔ یہ کارواں کب لٹا اور پاکستانی جمہوریت کب ملوکیت بنی، یہ ہمارے لیے غور و فکر کا مقام ہے۔
اکتوبر شروع ہوتے ہی پاکستان کی تاریخ کا ایک باب کھل جاتا ہے یہ ایک ایسا باب ہے جو آج تک معما ہے، دو اہم واقعات ہیں، ایوب خان کا مارشل لا اور ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل، کیا ان دونوں واقعات کا تعلق امریکی مفادات سے ہے؟ بس یہی ایک سوال ہے جس کے جواب کا سرا 75 سال گزرنے کے باوجود ہاتھ نہیں آرہا۔ ایک سائفر کی کہانی گھوم رہی ہے، یہ کہانی بھی ایک معما ہے اور صرف مقصد اقتدار بچانا ہے، سچ کوئی نہیں بول رہا۔ آئین میں آرٹیکل 62 اور63 کا باب ہم نے رکھا ہی اس لیے ہے کہ جو بھی قوم کی نمائندگی کرنے کا ارادہ باندھے اسے پہلے اس آرٹیکل کے معیار کے کھونٹے کے ساتھ باندھا جائے، لیکن جب بھی انتخابات ہوئے اور اس کے نتیجے میں قومی اسمبلی منتخب ہوئی، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب آرٹیکل62. 63 کا باب بند کرکے رکھ دینے سے ہوا، اگر ان پر عمل ہو تو پھر ایسی قیادت کس طرح منتخب ہوسکتی ہے جو ہر انتخابات کے بعد اسمبلی میں پہنچ جاتی ہے۔
ہم جلسوں میں سنتے رہتے ہیں، اخبارات کے اداریے بھرے پڑے پڑے ہیں، تجزیوں کا بھی ڈھیر لگا ہوا کہ جس میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد ہی سے عالمی طاقتوں نے پاکستان کے وجود کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس کی نظیر نہیں ملتی، اسی نکتہ کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ1971 میں اسی وجہ سے پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا کیونکہ سازش بڑی عالمی طاقتوں نے اس کے وجود میں آتے ہی شروع کر دی تھی۔ پاکستان کو دولخت کرنے کے لیے علٰیحدگی پسند قوتوں کو اندرونی و بیرونی دونوں طرح سے مکمل سپورٹ فراہم کی گئی، سوال یہ ہے کہ جن کے ہاتھ میں لگام تھی، اختیار تھا اور متحرک کیوں نہیں ہوئے اور رائے عامہ ہموار کرکے بیرونی ایجنڈوں پرکام کرنے والوں کے خلاف مزاحمت کیوں نہ ہوسکی، بنگلا دیش کے وجود میں آنے کے بعد پاکستان کو اگلا چیلنج روس کی افغانستان میں جارحیت کی صورت میں ملا روس نے افغانستان کے راستے گرم پانی تک پہنچنے کی سازش تیار کی لیکن اس کو منہ کی کھانی پڑی کیوں کہ پاکستان کی عوام اور افواج نے مل کر بھرپور قوت کے ساتھ اس کا دفاع کیا نتیجتاً روس کی افواج افغانستان کے پہاڑوں ہی میں دفن ہو گئی حالات ہم سے فوری حل کا تقاضا کرتے ہیں کے ایک مضبوط اور عدل سے بھرپور اسلامی حکومت کا فی الفور قیام ہو اور دیانت دار طبقہ ملک پاکستان کی باگ ڈور سنبھالے دیانت دار قیادت ملک پاکستان کو اس بھنور سے نکالنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے، بس ضروری ہے کہ ووٹ کی طاقت سے یہ قیادت آگے آئے۔