تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کی جانے والی تھی کہ خان صاحب نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ذاتی طور پر پیش ہو کر عدالت سے معافی مانگ لی ہے اور کہا ہے کہ وہ خاتون سیشن جج کے پاس جا کر بھی معافی مانگنے کو تیار ہیں۔ یاد رہے کہ خان صاحب نے ڈاکٹر شہزاد گل کا ریمانڈ دینے پر خاتون جج کو دھمکی دی تھی کہ وہ انہیں فکس اپ کردیں گے۔ جب ان کی اس دھمکی کا ذرائع ابلاغ میں چرچا ہوا تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے خان صاحب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔ اگر وہ اس نوٹس کے جواب میں پہلی پیشی پر ہی غیر مشروط معافی نامہ جمع کرادیتے تو بلاشبہ عدالت اسے قبول کرلیتی اور اس سے خان صاحب کے سیاسی وقار میں بھی اضافہ ہوتا کیوں کہ معافی نہایت معزز عمل ہے جسے خود خالق کائنات نے پسند فرمایا ہے اور معافی مانگنے والے کو اپنے ہدایت یافتہ ہندوئوں میں شمار کیا ہے۔ دنیا میں بھی اپنی غلطی پر معافی وہی لوگ مانگتے ہیں جو کھلے دل کے مالک ہوتے ہیں اور ان میں احساس کمتری نہیں پایا جاتا۔ خان صاحب اگرچہ اپنے سیاسی مخالفین کو مسلسل دھمکیاں دیتے رہتے ہیں اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، یہ معاملہ چوں کہ عدالت کا تھا اور عدالت کے پاس دھمکی دینے والے کو سزا دینے کا قانونی اختیار موجود ہے اس لیے خان صاحب شکنجے میں آگئے۔ لیکن ان کی اکڑ فوں پھر بھی برقرار رہی۔ انہوں نے توہین عدالت کے نوٹس کے جواب میں جو ’’عذرنامہ‘‘ داخل کرایا اس میں یہ اکڑ فوں پوری طرح بول رہی تھی۔ چناں چہ عدالت نے یکسر مسترد کردیا اور انہیں مزید ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے نیا جواب داخل کرانے کو کہا اس مہلت کا واضح مطلب یہ تھا کہ عدالت انہیں معافی مانگنے کا مزید موقع دے رہی ہے اور انہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لیکن خان صاحب اور ان کے قانونی مشیروں کی سوئی بدستور اٹکی رہی اور وہ دوسرے عذر نامے میں بھی معافی کے حوالے سے کوئی واضح موقف اختیار نہ کرسکے۔ چناں چہ عدالت نے اسے بھی مسترد کردیا اور اعلان کیا کہ 22 ستمبر کو توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کی جائے گی۔ یہ فیصلہ کن مرحلہ تھا اور صاف نظر آرہا تھا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد عمران خان کو سزا ہوسکتی ہے اور قید و جرمانے کے علاوہ ان کے نااہل ہونے کا بھی امکان ہے۔ خان صاحب اور ان کے مشیروں کی عقل ٹھکانے آگئی اور انہوں نے خیریت اس میں سمجھی کہ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے معافی مانگ لی جائے۔ خان صاحب نے معافی تو مانگ لی ہے لیکن ان کے مخالفین نے اب یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا معافی مانگنے سے خان صاحب کی سزا ٹل سکتی ہے؟ وہ اس حوالے سے مسلم لیگ کارکن نہال ہاشمی کی مثال دیتے ہیں جنہوں نے اپنے خلاف توہین عدالت کیس میں بلاتاخیر غیر مشروط معافی مانگ لی تھی لیکن عدالت نے ان کی معافی قبول نہیں کی اور انہیں بطورِ سزا پانچ سال کے لیے نااہل کردیا تھا۔ بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ توہین عدالت کا کیس دراصل فوجداری مقدمہ ہے اور فوجداری مقدمے میں معافی کوئی معنی نہیں رکھتی جس میں حقائق اور واقعات کی روشنی میں سزا سنائی جاتی ہے۔ بہرکیف عدالت نے خان صاحب کے معافی مانگنے کے بعد ان سے نیا حلف نامہ داخل کرنے کو کہا ہے جسے نیا معافی نامہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ عدالت اس کی روشنی میں فیصلہ کرے گی کہ خان صاحب قابل معافی ہیں یا نہیں۔ ان کے قانونی مشیر یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ نئے معافی نامے میں بھی الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ وہی موقف اختیار کیا جائے گا جو پہلے کیا جاچکا ہے۔ اب دیکھیے نیا معافی نامہ داخل کرائے جاتے کے بعد عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔
اِدھر عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے اجتماعی استعفوں کے بارے میں کیس کی سماعت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اجتماعی استعفے دیتے کے بجائے قومی اسمبلی کے ایوان میں جائے اور جمہوری عمل میں حصہ لے۔ لوگوں نے اسے منتخب کرکے قومی اسمبلی میں بھیجا ہے تو وہ اپنی ذمے داری پورے کرے۔ اگرچہ عدالت کے ان ریمارکس پر پی ٹی آئی کے بزر جمہروں نے اعتراض کیا ہے لیکن یہ بہت اہم اور قیمتی مشورہ ہے اور اس پر عمل کرکے ملک کے سیاسی بحران پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک جس جمہوری پارلیمانی نظام کے تحت چل رہا ہے اس کے دائرے میں رہتے ہوئے ہیں کوئی سیاسی جدوجہد کامیاب ہوسکتی ہے اس دائرے سے باہر نکلیں گے تو سوائے انتشار اور افراتفری کے
کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ عمران حکومت کے خلاف اپوزیشن کی جماعتیں ساڑھے تین سال تک احتجاجی تحریک چلاتی رہیں لیکن وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں۔ البتہ جب جمہوری پارلیمانی نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے قومی اسمبلی کے اندر کوشش کی تو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوگئیں۔ عمران خان کو بھی اقتدار سے سبکدوش ہونے کے بعد یہ سمجھ لینا چاہیے تھا کہ جب تک عام انتخابات کا اعلان نہیں ہوتا انہیں عوام کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ ان کی سیاسی جدوجہد اور حکومت سے طاقت آزمائی کا میدان قومی اسمبلی ہے ان کی جماعت پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں اپنی عددی قوت کے اعتبار سے سب سے مضبوط اپوزیشن تھی۔ وہ حکومت کو ناکوں چنے چبوا سکتی تھی، وہ قومی مفاد کے خلاف ہر قسم کی قانونی سازی کو روک سکتی تھی۔ وہ پارلیمنٹ میں حکومت پر اتنا دبائو بڑھا سکتی تھی کہ بالآخر اسے قبل ازوقت انتخابات کرانے پر مجبور ہونا پڑتا اور عمران خان کا جلد انتخابات کرانے کا مطالبہ پورا ہوجاتا لیکن وہ پارلیمنٹ میں اپنی قوت کا اندازہ ہی نہیں لگا سکے اور اجتماعی استعفے پیش کرکے اسمبلی سے باہر آگئے۔ یہ استعفے بھی ابھی تک منظور نہیں ہوئے ہیں اسی لیے عدالت نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ اسمبلی میں واپس جائیں اور عوام کے منتخب نمائندوں کی حیثیت سے اپنی ذمے داری پوری کریں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق خان صاحب نے مشروط طور پر یہ مشورہ قبول کرلیا ہے لیکن جس کا وہ ذکر کررہے ہیں۔ وہ اسمبلی میں جا کر بھی اس شرط کو اٹھا سکتے ہیں اور پاکستانی سفیر کے مراسلے کی تحقیقات کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔