میں نے شعور کی آنکھ کھولی تو احساس ہوا کہ سرِشام جو اندھیرا چھاتا ہے وہ مجھ سے بینائی بھی چھین کر لے جاتا ہے۔ دن کی روشنی میں البتہ مجھے زندگی معمول پر محسوس ہوتی تھی۔ اس احساس کے ساتھ ہی مجھے آج بھی وہ مناظر ذہن میں اُبھرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ میرے والدین مجھے جگہ جگہ علاج کے لیے لے جارہے ہیں، نہ صرف میرے والدین بلکہ یہ بات دیگر عزیزو اقارب بھی بیان کرتے ہیں کہ میرے اور میری بہن کے علاج کے لیے ہر اس جگہ گئے جہاں بھی والدین کو اُمید کی کرن نظر آئی۔ پھر میری کم نگاہی ہوتے ہوتے بالکل ہی روشنی کے احساس تک محدود ہو کر رہ گئی۔ انٹر کا امتحان میں نے دن کی روشنی کے ساتھ دیا اس کے بعد وہ دیا کیا بجھا کہ مجھے سائنس کے مضامین سے آرٹس کی طرف آنا پڑا۔ میرے بڑے بھائی راشد جمال جو آج اس دنیا میں نہیں میرے دوست بھی تھے، غم خوار بھی غم گسار بھی اور سب سے بڑھ کر میرے مددگار بھی۔ انہوں نے ہر ہر مرحلے پر میری مدد کی اور ہم جماعت اور بھائی ہونے کا حق ادا کردیا۔ والدین کے علاوہ دیگر بہن بھائیوں نے مجھے اپنی اس معذوری کا احساس بھی نہ ہونے دیا وہ جو کچھ میرے لیے کرسکتے تھے اور آج بھی وہ ہی میرے ممدومعاون ہیں۔ گو آج خاندان کی وسعت اختیار کرنے کی بنا پر بھانجے اور بھتیجے بھی ان معاونین میں ہیں۔ زندگی کا سفر اس معذوری کے ساتھ گزارنا کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ مجھے ہر ہر لمحہ ہوا ہے۔ میں نے اللہ کی بارگاہ میں التجا کی اور وہ جو دعائوں کا سننے والا ہے اُس نے اِس انداز سے نوازا کہ آج میں خود حیرت کرتا ہوں۔ مجھے معاونین ملتے گئے اور میں نے بی اے کے بعد جامعہ کراچی سے ایم اے اردو ادب میں باقاعدہ (ریگولر) طالب علم کی حیثیت میں کرلیا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیابی کے بعد مجھے میرٹ پر ایک کالج میں لیکچرار کی ملازمت مل گئی، میں نے اپنی زندگی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ پی ایچ ڈی کرلوں، ملازمت کے دوران اس ڈگری کے حصول کے لیے اجازت حاصل کرنے کے بعد میں نے تگ و دو شروع کی، میرے مشفق و محترم استاد پروفیسر ڈاکٹر سید محمد یونس حسنی نے نگراں ہونے کی حامی بھری۔ ’’نسیم حجازی‘‘ کی تاریخی ناول نگاری کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ میرے مقالے کا عنوان قرار پایا جب اس کی مشکلات کا اندازہ ہوا تو مجھے حوصلہ دینے والوں میں جہاں میرے والدین، بہن بھائی تھے وہاں شریک حیات بھی ان جذبوں کو ہوا دینے میں شریک رہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے 19 ستمبر 2003ء کو مجھے بھی ان 31 افراد میں شامل ہونے کا اعزاز ملا جو پی ایچ ڈی کے جامعہ کراچی سے حقدار قرار پائے۔ 14 جنوری 2004ء کو کورنگی ٹائون کی جانب سے مجھے سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے گولڈ میڈیکل عطا کرکے جس اہمیت سے مخاطب کیا کہ آج ایک نابینا کو اعزاز و اکرام دینے کے لیے اتنی بڑی تعداد میں بینا جمع ہوئے ہیں۔ ان کے اس حوصلہ مند جملے سے میری وہ ساری تھکن یک لخت اُترتی محسوس ہوئی جو اس دوران لاحق رہی تھی بس ایک کسک دل میں تھی کہ کاش اس تقریب میں میرے والد محترم ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر بھی موجود ہوتے اور اپنی ہدایت و تربیت کا پھل پاتے ہوئے اپنے بیٹے کو دیکھ سکتے۔ وہ 14 نومبر 2001ء میں ہم سے روٹھ کر دوسری دنیا میں جاچکے تھے۔
2003ء میں مجھے بحیثیت معاون پروفیسر ترقی نصیب ہوئی جو ازاں بعد 2014ء میں بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر BS-19 میں مزید ترقی کا باعث ہوئی۔ ملازمت کا دورانیہ بڑھتا جاتا تھا۔ ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آرہا تھا۔ 2021ء میں یہ خیال گزرا کہ کاش ریٹائرمنٹ سے قبل بحیثیت پروفیسر BS-20 ترقی مل جائے۔ بعض احباب نے مشورہ دیا کہ سیکرٹری تعلیمات برائے کالجز حکومت سندھ کی خدمت میں عرضی ارسال کریں۔ یوں میں نے پہلی بار 2-11-21 کو ایک درخواست کے ذریعے محترم خالد حیدر شاہ سیکرٹری تعلیم برائے کالجز حکومت سندھ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ میں نے نابینا ہونے کے باوجود ph-d کی تکمیل کی، نیز یہ کہ میرا ملازمت کا ریکارڈ بھی انتہائی شاندار ہے اس لیے مجھے ریٹائرمنٹ سے قبل گریڈ 20 میں ترقی دے دی جائے۔ درخواست جمع کرانے کے بعد اگلے ہی روز میں نے محترم خالد حیدر شاہ سے بہ نفس نفیس ملاقات کی اور گزارش کی کہ سینیارٹی لسٹ کے مطابق 60 نمبر تک کے ایسوسی ایٹ پروفیسرز کو بحیثیت پروفیسر گریڈ 20 میں ترقی دی جاچکی ہے اور اس فہرست میں میرا نمبر 64 ہے۔ انہوں نے میری بات بڑی توجہ اور ہمدردی سے سنی، اپنے عملے کو بلا کر صورت حال معلوم کی اور گویا ہوئے اگر آپ بورڈ I کے اجلاس سے قبل آجاتے تو آپ کو بھی فیوچر ویکنسی پر ترقی دے دی جاتی پھر بھی مجھ سے جو ہوسکا میں کروں گا آپ دعا کریں۔ اس دوران تفسیر قرآن سنتے ہوئے مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ سورئہ المومنون کی آخری 4 آیات کی بڑی اہمیت و فضیلت آئی ہے، یہاں تک کہ اسے پڑھنے سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل سکتے ہیں۔ میں نے یقین کے ساتھ ان آیات کو زبانی یاد کرلیا اور پھر کوشش کی کہ نماز اشراق، چاشت اور دیگر نمازوں کے نوافل میں ان آیات کی تلاوت کو اپنا معمول بنائوں اور جب بھی ممکن ہو شعور کی گہرائیوں کے ساتھ ان آیات کی تلاوت کروں اور اس کے مطالب و مفاہیم پر تفکر کروں۔ اور پھر بڑی اُمید کے ساتھ اگلی درخواست یاددہانی کی غرض سے
22-12-21 کو ارسالِ خدمت کی اور سیکرٹری صاحب سے ملاقات کرنا چاہی مگر طویل انتظار اور ان کی سرکاری مصروفیات کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ قریباً ایک ماہ کے انتظار کے بعد میں نے یاددہانی کی ایک اور درخواست 31-01-22 کو جمع کروائی۔ بالمشافہ ملاقات اس مرتبہ بھی ممکن نہ ہوسکی، وقت گزرتا جاتا تھا، اُمید معدوم ہوتی جارہی تھی مگر میں ہمت ہارنے کو تیار نہ تھا۔ یوں میں ایک بار پھر درخواست لیے 17-3-22 کو محترم خالد حیدر شاہ سیکرٹری تعلیم حکومت سندھ کے دفتر جا پہنچا، چند لمحے انتظار کے بعد ملاقات کی صورت بن گئی۔ انتہائی خوش اخلاقی سے ملے، مجھے بٹھایا اور پھر اپنے عملے کو بلا کر میری ترقی کے امکانات پر گفتگو کرنے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ سینیارٹی لسٹ میں اب میرا نمبر 62ہے۔ میں نے توجہ دلائی کہ اب میرے ریٹائرمنٹ میں قریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہے وہ بولے ہم نے بورڈ I کے لیے کاغذات منگوائے تھے جو اب تک ہمارے پاس نہیں آئے، آپ ایسا کریں کہ ریجنل ڈائریکٹر سے ملیں اور کہیں کہ وہ آپ کے کاغذات ہمارے دفتر بھیج دیں جس پر میں نے عرض کی میرا کہا وہاں کون سننے گا۔ وہ بولے آپ جا کر کہیں ہم خود بھی کہلوادیں گے۔ ان کی گفتگو سے مجھے بڑا حوصلہ ملا، میں خوش خوش ریجنل ڈائریکٹر کراچی کے دفتر آیا تمام کیفیت سے آگاہ کیا مگر وہی سرکاری انداز ڈپٹی ڈائریکٹر بولے آپ جائیے ہم اگلے ہفتے تک سب کے کاغذات ایک ساتھ بھیجیں گے۔ ان کے جواب سے اُمید ایک بار پھر ٹوٹتی محسوس ہوئی دل شکستہ گھر کی طرف روانہ ہوا۔ 21-3-22 کو بورڈ I کی میٹنگ ہونی تھی جن صاحبان کے نام پر غور ہونا تھا ان میں دیگر محکموں کے ملازمین کے علاوہ محکمہ تعلیم کا صرف ایک ریٹائر پروفیسر شامل تھا۔ اس موقع پر میں نے اپنے ایک ساتھی فہیم ارشد سے کہا کہ میرا نام تو لسٹ میں شامل نہیں کیا اس کے باوجود بھی ترقی کا امکان ہے۔ وہ بولا اللہ چاہے تو سب کچھ ہوسکتا ہے اور پھر شام
5 بجے کے بعد دوستوں کی طرف سے مبارکباد کے فون آنے لگے ۔ میں حیران تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا میری بحیثیت پروفیسر گریڈ 20 میں ترقی کی خبر پورے شہر میں پھیل چکی تھی۔ میں سجدہ شکر بجا لایا آنکھیں نم دیدہ تھیں میرے رب کی عنایت تھی ایک انہونی کو ہونی کر دکھایا۔ دو روز بعد اس جستجو میں کہ ترقی کیوں کر ممکن ہوئی میں پہلے ریجنل ڈائریکٹر کے دفتر گیا وہاں سب ہی نے مبارکباد دی۔ عملے نے بتایا کہ 21 مارچ کی صبح 10 بجے سیکرٹری تعلیم کے یہاں سے فون آیا کہ ممتاز عمر کے تمام کاغذات آدھے گھنٹے میں ان کے دفتر بھیجے جائیں ہم نے فائل تیار کی اور قریباً ایک گھنٹے بعد سیکرٹری صاحب کے دفتر پہنچادی۔ یہاں مٹھائی کھلا کر میں مزید مٹھائی لینے سیکرٹری تعلیم محترم خالد حیدر شاہ کے دفتر پہنچا۔ وہ بورڈ II کی میٹنگ میں جارہے تھے۔ ان کے PA سے ملاقات ہوئی اس نے بھی مبارکباد دی، میں نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے کہ سیکرٹری صاحب نے پیر کی صبح کو آپ کی فائل منگوائی اور دوپہر کو بہ نفس نفیس خود فائل لے کر بورڈ I کے اجلاس میں جا پہنچے جہاں انہوں نے تمام اراکین سے گزارش کی کہ یہ ایک نابینا شخص ہے جو ڈیڑھ ماہ بعد ریٹائر ہورہا ہے اگر اس کی ترقی پر بھی غور فرمالیں تو میں ذاتی طور پر احسان مند ہوں گا۔ اور یوں تمام اراکین نے مل کر ترقی کی منظوری دے دی۔ یکم اپریل 2022ء کو میری ترقی کا باقاعدہ حکم نامہ جاری ہوا اور یوں ریٹائرمنٹ سے قبل ایک ناممکن عمل ممکن ہوا اور میں 8 مئی 2022ء کو بحیثیت پروفیسر 3 عشروں تک درست و تدریس کی ذمے داریاں نبھا کر ریٹائر ہوگیا۔ محترم خالد حیدر شاہ سیکرٹری تعلیم برائے کالجز حکومت سندھ انتہائی شریف النفس، ایثارو ہمدردی کا پیکر، انسان دوست، مسائل کو حل کرنے کے خواہاں ذمے دار افسر ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں عطا فرمائیں۔ آمین۔ تمام احباب کو مشورہ ہے کہ وہ کبھی ہمت نہ ہاریں، لگن اور جستجو کے ساتھ خوش امیدی کو قائم رکھتے ہوئے جہد مسلسل کی راہوں پر گامزن رہیں۔ اللہ پر یقین رکھیں انہونی کو ہونی کردینا اس رب کے لیے مشکل نہیں۔ ہاں بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم کو اپنا شعار بنائیں۔ ان شاء اللہ۔ آمین