کسی نے آزمائش کہا، کسی نے کہا عذاب ہے، کسی نے شامت ِ اعمال، تو کوئی کہہ گیا کہ آیا نہیں لایا گیا ہے، بہر حال۔۔۔ سیلاب آنا تھا سو آگیا، بھئی سیلاب تو آگیا لیکن پھر ہوا کیا؟ ہوا یہ کہ نقصانات اس قدر ہوئے کہ امداد کے متلاشی متاثرین مسلسل دوہائیاں دیتے نظرآرہے ہیں، راستوں کی بندش نے بھی خوب ستم ڈھائے، آفت زدہ علاقوں، گائوں دیہاتوں کی صورت حال اور معاملات تو سب کے سامنے ہیں، عجیب بات یہ ہے کہ کراچی تک اس کے اثرات آپہنچے، مانا کہ جل تھل شہر قائد میں بھی ہوا، لیکن کیا اس قدر کہ بقول شاعر، مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی۔ یہ شعر اس لیے کہ تیز بارشوں کے فوراً بعد جلدی سے سننے میں یہ بھی آیا کہ کام ہو رہا ہے، بہتری آئے گی، سب نہیں تو بہت کچھ توٹھیک ہو ہی جائے گا، لیکن پھر نگاہوں کو ٹھیک نہیں سب بگڑتا ہوا ہی نظر آیا۔ فلموں میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ چوٹ ایک بھائی کو لگتی ہے تو درد دوسرے کو ہوتا ہے، زخم ایک کو لگتا ہے تو خون دوسرے بھائی کا رستا ہے، شاید سیلاب زدہ علاقوں کے تناظر میں یہی حال عروس البلاد کا بھی ہوا، وگرنہ 70 فی صد ریونیو جنریٹ کرنے والے، ملک کے معاشی حب کا یہ حال۔۔۔ ہو ہی نہیں سکتا جناب!!
سب سے تکلیف دہ سڑکوں کے گڑھے نظر آتے ہیں، صحت مندوں کے لیے ناقابل ِ برداشت ہیں تو پھر ان کا سوچیں کہ جو ایمبولنس میں لیٹے، کچھ تو آخری سانسیں لیتے اسپتال جا رہے ہوتے ہیں، پھر راستوں کی خستہ حالی ٹریفک بھی تو جام کر دیتی ہے، ٹرک، بسیں، کاریں روڈ پر کھڑی ہوجائیں، اور پھر گھنٹوں کھڑی ہی رہیں تو پھر رہی سہی سانسیں بھی دم توڑ دیتی ہیں۔۔۔ کس کی؟ وہی ایمبولنس میں لیٹے شخص کی!
اور پھر راستوں کی بندش سے پٹرول اور وقت کا ضیاع بھی تو ایک مسئلہ ہے! وقت ضائع ہونا تو پھر بھی قابل ِ برداشت ہے، پٹرول کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ، ہوش ٹھکانے لے آیا ہے، بجلی گراتے بل، پانی، گیس، انصاف، روزگار اور مہنگائی جیسے مسائل نے مفلوک الحال عوام کو ذہنی اور جسمانی امراض میں مبتلا کر دیا ہے، پھر اُس پر ستم ظریفی یہ کہ کچرے سے لدے، بغیر ڈھنپے، چُھپے ٹرک، سڑکوں پر دندناتے گھوم رہے ہیں، ان ٹرکوں کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں، پہلے اتنے نظر نہیں آتے تھے، اب مختلف اوقات اور کافی تعداد میں طویل سفر پر گامزن دکھائی دیتے ہیں، اسی طرح سے ڈمپر، مال بردار کنٹینرز اور کنکریٹ مکسر کسی بھی وقت سڑکوں پر نمودار ہو جاتے ہیں، اور پھر عوامی مرکز سے نزدیک ہونے والے حادثات جنم لے لیتے ہیں، ایک ہی گھر سے بیک وقت اُٹھتے تین جنازے گھر والوں کی آنکھوں میں عمر بھر کے لیے آنسو دے جاتے ہیں، دلوں کو چھلنی، اور روح کو گھائل کردیتے ہیں!! بہر حال۔۔۔ کچرے کے ٹرک پر واپس آتے ہوئے بات جاری رکھتے ہیں، بھئی یہ ٹرک بھی اذیتوں میں مسلسل اضافے کا باعث اس طرح سے بن رہے ہیں کہ جب ان کے بڑے، بڑے پہیے گڑھوں میں جاتے ہیں تو پیدا ہونے والے ارتعاش سے کافی کچرا سڑک پر ہی گر ِ جاتا ہے یا پھر اس موٹر سائیکل والے پر جو اس وقت پاس سے گزر رہا ہوتا ہے، اس سے متاثرہ موٹر سائیکل والوں کے لباس اور موڈ دونوں حد درجے خراب ہوجاتے ہیں، کپڑوں کی خرابی سے متعلق یہاں اُس کیچڑ کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو بارش کے بعد سڑکوں پر جا بجا دکھائی دیتا ہے، یا پھر نشیبی راستوں پر موجود وہ پانی جو کافی دنوں تک، جہاں تھا وہیں کی مصداق، موجود رہتا ہے اور پھر کیچڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اُبلتے گٹروں کا غلیظ پانی، ہوائوں میں اُڑتا ہلکا، پھلکا اور زمین پر موجود قدرے بھاری کچرا بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے۔۔۔ یہ سب جو بھی ہے میرے نزدیک تو ’’ڈھٹائی‘‘ ہی کہلائے گا، کیچڑ، کچرے کی نہیں، بلکہ بارش کے پانی سے غلاظت بننے تک کے سفر میں شامل ان عوامل کی جنہوں نے بدعنوانیوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے!