آخری حصہ
اس وقت یورپی یونین توانائی کے استعمال پر تحدید کے اقدامات پر غور کررہی ہے۔ جس طرح کے الیکٹرک کے پیک آورز ہوتے ہیں اسی طرح وہاں بھی پیک آورز ہیں، اس دوران بجلی کے استعمال پر لازمی پابندیاں ہوں گی۔ اب یورپ بچت مہم شروع کرنے والا ہے، بجلی ضائع کرنے والے کے خلاف کارروائی ہوگی اسے جیل بھی بھیجا جائے گا۔ اگر کوئی اپنے گھر کی لائٹ کھلی چھوڑ کر چلاگیا تو اسے جرمانہ ہوگا۔ چناں چہ اب یورپ میں کووڈ لاک ڈائون کی جگہ پاور لاک ڈائون ہوگا۔ لوگ اسے یوکرین جنگ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں لیکن اس سے پہلے کورونا لاک ڈائون بھی کاروبار تھا اور اب توانائی کا بحران بھی کاروبار ہے۔
عالمی ساہوکار، سود خور ادارے دنیا کے لیے تڑپنے والی این جی اوز ان کے سرپرست یہ سب کاروبار کررہے ہیں۔ دوسری دنیا اور تیسری دنیا کے پاس تو وسائل بچے ہی نہیں ہیں اس لیے اب ان ساہوکاروں کا رخ یورپ کی طرف ہوگیا ہے۔ وہ یورپ کو خوفزدہ کرکے روپیہ اینٹھیں گے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف سے اس کے بارے میں اگر تیسری دنیا کا کوئی رہنما، دانشور یا تھنک ٹینک کچھ کہے تو اسے بے وقوف کہا جاتا ہے لیکن اب تو مغرب سے بھی آئی ایم ایف کے بارے میں بلند آوازیں آنے لگی ہیں۔
معروف امریکی ماہر معاشیات مائیکل ہڈسن کا کہنا ہے کہ آج کے دور کے سب سے بڑے شیطانی ادارے عالمی بینک اور آئی ایم ایف ہیں۔ انہوں نے ایک نشست میں اس سوال کے جواب میں کہ افریقی اور تیسری دنیا کے قرضوں اور امریکی قرضوں میں کیا فرق ہے، کہا کہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ امریکی قرضے اور افریقی قرضے دونوں ڈالروں میں ہیں امریکا اپنے قرضے کبھی ادا نہیں کرے گا لیکن تیسری دنیا کو امریکی ڈالر کما کر اس کے قرضے اُتارنے ہیں، عالمی بینک اور ڈونر اداروں کی شرط ہے کہ کوئی ملک قرضہ لینے والا اپنی خوراک خود پیدا نہیں کرسکتا۔ وہ کافی وغیرہ پیدا کرکے ڈالر حاصل کرے اور امریکا سے خوراک خریدے، اگر ان ملکوں نے اپنی خوراک خود پیدا کرنے کی کوشش کی تو انہیں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ 60 کے عشرے میں چین کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اگر ان ممالک نے اپنی خوراک خود پیدا کرنا شروع کردی تو ان کو غلہ نہیں دیا جائے گا ان کو قحط کا شکار کردیا جائے گا۔ ان کا کام صرف امریکی ڈالر حاصل کرکے اس سے غلہ خریدنا ہے اور برآمدی اشیا پیدا کرنا ہے جو امریکا کو مطلوب ہیں۔ انہیں وہ ملے گا جو امریکا چاہتا ہے۔ وہ ایسی چیز بیچنے اور پیدا کرنے پر مجبور ہیں جو امریکا کو مطلوب ہے۔ مائیکل ہڈسن پہلا اور آخری امریکن نہیں جس نے ان عالمی ساہوکاروں پر سخت تنقید کی ہے بلکہ کئی دوسرے مصنف اور ماہرین بھی یہ کام کرتے ہیں لیکن مغربی اور خصوصاً غلام ممالک کے میڈیا کو ان خبروں، تجزیوں اور تبصروں کی اشاعت سے روک دیا جاتا ہے۔ ہڈسن نے 1972ء میں اپنی کتاب سپر امپیرلزم میں امریکی معاشی ہتھکنڈوں کا کچا چٹھہ کھول دیا تھا۔ ایک طرف اس سرمایہ داری نے تیسری دنیا کو معاشی غلام بنا رکھا تھا تو دوسری طرف اسی ترقی یافتہ دنیا کی ترقی اور ایجادات نے ماحولیاتی تبدیلیاں پیدا کردیں جو نہایت تیز رفتار سے تبدیل ہورہی ہیں۔ اب ان کی اپنی ایجادات تدبیریں اور صنعتوں کا نقصان انہیں ہی ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اسے کہتے ہیں کہ تم اپنی چالیں چلو اللہ اپنی تدبیر کرے گا۔ جب تک ماحولیاتی تبدیلیوں پر بین الاقوامی پالیسیاں لائیں گی اس وقت تک یورپ نئی تیسری دنیا بن چکا ہوگا۔ اس دنیا میں برصغیر کے حکمران کبھی عرب دنیا کو چندہ دیتے تھے۔ ترک عثمانی حکمران برطانیہ کو مدد دیتے تھے برطانیہ کی راجدھانی میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا آج وہ سمٹ کر چھوٹا سا رہ گیا ہے اب یورپ کا سکون برباد ہورہا ہے۔
جدید آلات ایجاد کرکے دنیا میں خوب عیش کیے لیکن اب نتائج آنا شروع ہوگئے۔ 21 ویں صدی کے اوائل اور 20 ویں صدی کے اواخر میں تیسری دنیا اور ترقی پزیر ممالک کو ہدایت دی جاتی تھی کہ خطرناک گیس استعمال نہ کریں، ائرکنڈیشن سے دنیا کا ماحول متاثر ہورہا ہے۔ لیکن اب امریکا، برطانیہ، جرمنی اور یورپ کے کئی ملکوں میں گرمی ہونے لگی ہے۔ انہیں پنکھوں کی ضرورت پڑ گئی، اب وہ ائرکنڈیشنر استعمال کریں گے۔ یہ جلے ہوئے دل کی باتیں نہیں ہیں بلکہ اب انہیں اپنے ہاتھوں سے وہی کام کرنے ہوں گے جس کے لیے وہ ترقی پزیر ممالک کو منع کیا کرتے تھے۔ اب نئے جواز تراش لیے جائیں گے۔ اس صورت حال پر لوگوں کا کہنا ہے کہ حکمران نااہل ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب دنیا پر جن قوتوں کا کنٹرول ہے وہ حکمران بننے ہی اس کو دیتے ہیں جو نااہل ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بھی کوئی کاروبار ہے۔ جی ہاں… اب توانائی کا کاروبار ہوگا۔ ہم تو توانائی مہنگی ہونے کا رونا رو ہی رہے تھے اب یورپ کے لیے بھی توانائی کا حصول مشکل کردیا جائے گا۔ جس طرح کووڈ سے دنیا کی فارما انڈسٹری، اسپتالوں، ماسک بنانے والوں اور دیگر کاروبار کو فائدہ ہوا اس طرح اب توانائی کا کاروبار چلے گا۔