لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں

727

ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
حساس طبع ہونا بھی اک قیامت ہے۔ واللہ! قیامت ہے۔ سندھ اور پاکستان کا ایک عام فرد، حالات کا مارا، مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر ان گنت چھوٹے بڑے مسائل میں مبتلا ہو کر اور حکمران طبقے کی بے حسی، ڈھٹائی اور بدعنوانی کو دیکھنے کے بعد مرزا غالبؔ کا یہ شعر بے اختیار ذہن میں آجاتا ہے کہ:
یارب! زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے!؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں
سچ تو یہ ہے کہ آج ہر باشعور اور حساس فرد کو موجودہ حالات بہت زیادہ سنگین اور مستقبل انجانے ہولناک خطرات میں گھرا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک عام فرد کے لیے موجودہ ابتر اور پریشان کن صورت حال میں مع خاندان سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرنا محال سے محال تر ہوتا جارہا ہے۔ حکمران طبقے کے پاس عوام اور ملک کے مسائل کے خاتمے اور حل کے لیے کوئی وژن ہے اور نہ ہی کسی نوع کی کوئی پلاننگ۔ اس پر مستزاد گزشتہ دنوں ہونے والی خلاف معمول بارشوں کے طویل ترین سلسلے نے رہی سہی کسر بھی پوری کر ڈالی ہے۔ اہل سندھ کی زراعت اور معیشت کی حالت پہلے ہی زبوں اور خراب تھی اب تو شدید بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ان کے گھر بار اور تیار کھڑی فصلیں بھی تباہ و برباد ہوچکی ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی پرسان حال ہے اور نہ ہی کوئی غم گسار۔
سندھ حکومت کی جانب سے جاری کردہ سرکاری رپورٹ کے مطابق جو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی کے صفحہ اول پر چھپی ہے کے مطابق برساتی سیلاب
سے 35 لاکھ ایکڑ پر محیط فصل تباہ اور 7 لاکھ گھر متاثر ہوئے ہیں۔ سندھ میں 68 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں جب کہ متاثرین میں تاحال صرف 6 لاکھ خیمے ہی تقسیم کیے جاسکے ہیں۔ لاکھوں متاثرین سیلاب عالم بے بسی اور بے کسی میں سرکاری عمارات، تباہ سڑکوں کے کنارے دن کو مکھیوں کے جھنڈ اور رات کو مچھروں کے لشکر کے حملوں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ خام مال اتنا زیادہ گراں ہوچکا ہے کہ جو افراد پہلے ٹھیلوں پر حلیم چاول، دہی بھلے، سموسے پکوڑے، دال چاول وغیرہ جیسی کھانے کی اشیا فروخت کیا کرتے تھے ان کا روزگار بھی بہت بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ اہل خانہ کو ایک وقت کا کھانا کھلانا بھی خاندان کے سربراہ کے لیے محال ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس وقت مہنگائی کی شدید ترین لہر ہے جس نے غریب اور متوسط طبقے کو نیم جان اور نڈھال کر ڈالا ہے۔ اس پریشان کن اور تشویش ناک صورت حال سے پیش تر بھی لوگوں کی اکثریت متفکر اور مضطرب رہا کرتی تھی لیکن قدرے مختلف حوالوں سے۔ کسی کو اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی نوجوان اور نوجوان بہنوں اور بیٹیوں کے لیے مناسب رشتوں کی تلاش اور شادی بیاہ پر اٹھنے والے اخراجات کا مسئلہ درپیش تھا تو کوئی اپنے بے روزگار بیٹوں کی بے روزگاری سے نالاں تھا یا پھر کسی کی نیند کرائے کا مکان یا دکان کے کرایہ ادائیگی کی تاریخ سر پر معلق ہوتے دیکھ کر اُڑی ہوئی ہوتی تھی، لیکن حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے گھروں کی شکست وریخت، بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور بے حساب مہنگائی نے غریب اور سفید پوش افراد کے لیے ’’مرے پر سو دُرے‘‘ کا بے رحمانہ کردار ادا کیا ہے۔ ایسے ابتر ترین اور ناگفتہ بہ حالات میں حسب سابق و روایت حکومت وقت یعنی وفاقی اور صوبائی حکومت سندھ کی رٹ کہیں پر دکھائی نہیں دیتی۔ ہر طرف، ہر سمت لوٹ مار کا ایک ایسا بازار گرم ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا آخر ہمارا کیا بنے گا؟ سیلاب اور بارش سے متاثرہ افراد کے لیے اپنے گھروں کی تعمیر و مرمت کا کام کروانا بھی کسی ذہنی اذیت سے کم ہرگز نہیں ہے۔ سیمنٹ، لوہا، سریا، ریتی اور دیگر میٹریل فروخت کرنے والے ڈیلرز نے راستے بند ہونے کا جواز تراش کر تعمیراتی سامان کو کئی گنا دام بڑھا کر بیچنا شروع کردیا ہے، جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
حکومت سندھ کے محکمہ خوراک نے گزشتہ سال کے اختتام پر بہت بڑی مقدار میں لاکھوں ٹن گندم خرید کر اسٹاک کرلی تھی جس کی امدادی قیمت اس نے 22 سو روپے فی من متعین کی تھی۔ اب ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ حکومت سندھ نے بارش اور سیلاب کی موجودہ تباہ کاری کی صورت حال میں گندم کی امدادی قیمت 4 ہزار روپے من مقرر کی ہے، ایک ایسے وقت میں کہ جب سندھ کے کروڑوں متاثرین سڑکوں، راستوں پر روٹی کے ایک لقمہ کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، حکومت سندھ کے بے حس اور بے حمیت ذمے داران نے ظالمانہ انداز میں بیوپاریوں اور اپنے گندم ذخیرہ کرنے والے وزرا کو باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت فائدہ پہنچانے کے لیے گندم کی امدادی قیمت 4000 روپے فی من مقرر کردی ہے، جس کی وجہ سے گندم کا ذخیرہ کرنے والوں کو بیٹھے بٹھائے کروڑوں بلکہ اربوں روپے کا فائدہ مل جائے گا اور اہل سندھ کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں آٹا 200 روپے کلو دستیاب ہوسکے گا جو حکومت سندھ مذکورہ غیر قانونی انداز میں خود ذخیرہ اندوزی کے ناجائز گھنائونے اور مکروہ عمل میں ملوث ہو اس سے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کسی کارروائی کی توقع کرنا کارعبث ہے۔
عوام اور متاثرین جلدی امراض میں مبتلا ہیں اور ملیریا، میعادی، بخار سمیت اُلٹی دست کی بیماریوں میں تیزی سے مبتلاہو کر دم توڑتے جارہے ہیں۔ حکومت سندھ علاج کی سہولت مہیا کرنے کے بجائے انہیں ظالمانہ انداز مین لوٹنے کے پروگرام بنارہی ہے؟ حکومت سندھ کے اس ظالمانہ قدم یا فیصلے کو سیاسی مبصرین کرپشن سے بھی کہیں زیادہ صریح ظلم قرار دے رہے ہیں اور ان کے بقول اپنوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے سندھ میں قحط جیسی صورت حال پیدا کرنا ایک سنگین جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ سندھ حکومت کے گوداموں سے اب 1800 روپے فی من گندم نفع حاصل کرکے خریداروں کو بیچی جائے گی اور فلور ملزم مالکان 4000 روپے میں فی من جب گندم خریدیں گے تو وہ من مانی قیمت پر آٹا فروخت کریں گے۔ حکومت سندھ کی اس ٹیکنیکل دھاندلی اور کرپشن پر اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
ایسی خراب اور تشویش ناک صورت حال میں کہ جب حکومتیں بھی کرپشن میں ملوث دکھائی دے رہی ہیں، سندھ کے ہر ضلع اور شہر میں جماعت اسلامی کے فلاحی ادارے الخدمت فائونڈیشن کی طرف سے تمام تر ضروری سہولتوں سے آراستہ و پیراستہ سیکڑوں افراد کی آبادکاری پر مشتمل خیمہ بستیوں کا متاثرین بارش و سیلاب کے لیے انتظام، اہتمام اور انصرام کرنا قابل صد تحسین قدم ہے۔ گزشتہ روز راقم نے الخدمت ضلع جیکب آباد کے ضلعی صدر غلام حیدر پیرزادہ، انچارج خیمہ بستی ابوبکر سومرو اور دیگر ذمے داران امیر شہر ہدایت اللہ رضا، صادق ملغانی اور عنایت اللہ ٹالانی کی دعوت پر بائی پاس کے مقام پر قائم کردہ خیمہ بستی کا دورہ کیا۔ جہاں درجنوں خیموں میں سیکڑوں متاثرین سیلاب رہائش پزیر ہیں اور انہیں ناشتہ، دو وقت کا کھانا ہی نہیں بلکہ عمدہ علاج کی سہولت بھی بہم پہنچائی گئی ہیں۔ ماشاء اللہ جیکب آباد اور ٹھل میں ضلعی امیر دیدار لاشاری اور نائب امیر ضلع امداد اللہ بجارانی خیمہ بستیوں میں پناہ گزین متاثرین کے لیے جو قابل ستائش کام کررہے ہیں اس کا اجر اللہ انہیں ضرور دے گا۔ ان خیمہ بستیوں کا دورہ ترکیہ کا وفد اور مرکزی صدر الخدمت عبدالشکور بھی کرکے ذمے داران کی خدمات کو سراہا چکے ہیں۔ دوسری جانب پیما کے صوبائی رہنما اور گل میڈیکل سینٹر جیکب آباد کے روح رواں ڈاکٹر اشفاق شیخ اور دیگر طبی عملے کے ہمراہ ضلع جیکب آباد اور اس سے ملحق بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں ہمہ وقت متاثرین سیلاب و بارش کے علاج معالجہ کے لیے سرگرداں اور سرگرم عمل ہیں۔ تاحال ہزاروں بیمار افراد، بچوں اور خواتین کو جو مختلف وبائی امراض اور دیگر خطرناک بیماریوں میں مبتلا تھے کو چیک اپ کے بعد مفت ادویات، مچھر دانیاں اور منرل واٹرز کی بوتلیں دی جاچکی ہیں۔ آغا خان اسپتال کراچی کے سند یافتہ ڈاکٹر عبدالرشید وہاب میمن اپنے مرحوم والد ڈاکٹر عبدالوہاب میمن سابق صوبائی صدر پیما سندھ کا نقش ثانی ہیں۔ ان کی مذکورہ خدمات کا بے لوث سلسلہ مستقبل میں بھی جاری و ساری رکھنے کا عزم ہے۔ راقم جب الخدمت کی خیمہ بستی کو دیکھنے جارہا تھا تو اس نے وہاں پہنچنے سے قبل سڑک کے دونوں اطراف سیکڑوں بوسیدہ خیموں میں ہزاروں مرد و خواتین اور بچوں کو عالم بے سروسامانی میں اُلجھے بالوں، میلے کچیلے لباس میں سنتے ہوئے مایوس چہروں کے ساتھ دیکھا جو آنے جانے والی گاڑیوں کو اُمید و حسرت اور یاس کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ خیموں کے اس پاس تا حد نگاہ ہنوز کئی کئی فٹ بدبودار اور گندا پانی کھڑا تھا جس سے اُٹھنے والے بدبو کے شدید بھبکوں سے بے اختیار اُلٹی اور قے آتی ہوئی محسوس ہوئی اور میں نے بمشکل خود کو قے کرنے سے باز رکھا۔ متاثرین بارش کو یون بے بسی، مایوسی اور بے کسی کی حالت میں دیکھا تو بے اختیار مجھے رونا آگیا دل غم سے اتنا زیادہ بھر گیا کہ بمشکل خود پر قابو پاسکا۔ احساس بے بسی اور بے کسی نے گھیرلیا اور سوچنے لگا کہ آخر ان متاثرین کی آزمائش کب ختم ہوگی؟ کس طرح ختم ہوگی؟ کب یہ اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے اور ان کی معمول کی زندگی کب بحال ہوگی؟ بظاہر تو اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ متاثرین بارش اور سیلاب کے حوالے سے اور بھی بہت سارے دل گرفتہ المناک پہلو ایسے ہیں جو تحریر طلب ہیں اور جن پر آئندہ لکھنے کی کوشش کروں گا۔ ان شاء اللہ