کھڑک سنگھ

677

آپ نے یہ مقولہ تو بچپن سے سنا ہوگا کہ ’’کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑ کیاں‘‘ مگر اس کے پیچھے کیا کہانی ہے، اس کا علم کم ہی لوگوں کو ہوگا۔ کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجا کے ماموں تھے، پٹیالہ کے سب سے بااثر بڑے جاگیردار اور گاؤں کے پنچایتی سرپنچ بھی تھے۔ ایک دن معاملات سے تنگ آکر بھانجے کے پاس پہنچے اور کہا کہ شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دو۔ بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ وائسرائے کے پاس جاپہنچے، وائسرائے نے خط پڑھا۔ وائسرائے۔ نام؟، کھڑک سنگھ، وائسرائے۔ تعلیم؟، کھڑک سنگھ۔ ’’تسی مینو جج لانا ہے یا اسکول ماسٹر؟، وائسرائے ہنستے ہوئے سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے؟، کھڑک سنگھ نے مونچھوں کو تاؤ دیا اور بولے ’’بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھاؤں میں برسوں سے پنچایت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں۔ وائسرائے نے سوچا کہ بھلا کون مہاراجا سے الجھے جس نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کا ماموں، عرضی پر دستخط کردیے اور کھڑک سنگھ جسٹس کا فرمان جاری کردیا۔ اب کھڑک سنگھ پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرۂ عدالت میں پہنچے، اتفاق سے پہلا کیس قتل کا تھا۔ کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی خاتون تھی۔ جسٹس صاحب نے کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے فریقین کو غور سے دیکھا اور معاملہ سمجھ گئے۔ ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا، مائی لارڈ یہ عورت کرانتی کور ہے اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے عورت سے تفصیل پوچھی۔ عورت بولی ’’سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں درانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے سے نکلے اور کھسم کو مار مار کر جان سے مار دیا۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصہ سے دیکھا اور پوچھا، کیوں بدمعاشو تم نے بندہ مار دیا۔ دائیں طرف کھڑے بندے نے کہا، نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی دوسرے نے کہا میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد صرف سمجھانا تھا۔ کھڑک سنگھ نے غصہ سے کہا جو بھی ہو بندہ تو مرگیا نا؟۔ پھر قلم پکڑ کر کچھ لکھنے لگے تو اچانک ایک کالا کوٹ پہنے شخص کھڑا ہوا اور بولا مائی لارڈ رکیے، ’’یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا؟۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے؟۔
جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے۔ پولیس والے نے جواب دیا۔
تو انہیں کا بندہ ہوا ناں جو ان کی طرف سے بات کررہا ہے، پھر کھڑک سنگھ نے وکیل صفائی کو بھی ان چاروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہا اور ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کردیے۔ فیصلے میں لکھا تھا (ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیا جائے)۔ پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی۔ لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھر تھر کانپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی پھانسی دیتا ہے، اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی وکیل کسی مجرم کا کیس نہ پکڑتا، جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہے ریاست میں خوب امن رہا آس پڑوس کی ریاست سے لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔
ہمارے ملک کے ایک وسیع رقبے پر آج بھی پنچایتی نظام موجود ہے جس میں جس قسم کا مقدمہ بھی جاتا ہے اس کا فیصلہ برسوں، مہینوں، ہفتوں، دنوں یا گھنٹوں میں نہیں ہوا کرتا بلکہ فریقین کو سنا جاتا ہے اور فیصلہ سنادیا جاتا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ وہاں ہر فیصلہ درست نہیں ہوتا ہوگا لیکن کیا ہماری اعلیٰ عدالتوں میں ہونے والے سارے فیصلے درست اور حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں؟۔ خود ہماری عدالتوں کی ترجیحات میں یہ بات شامل ہے کہ جو بھی معاملات ہیں وہ باہم بیٹھ کر حل کر لیے جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ جہاں جہاں بھی عدالتوں میں فیصلے فوری اور مفت یا نہایت سستے سنے اور کیے جاتے ہیں، ان ہی علاقوں اور ملکوں میں امن ہے اور لوگ باہر سڑکوں، بازاروں اور گلیوں میں اپنے اپنے بدلے چکانے کے بجائے عدالتوں کا رخ کرتے کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ وہاں جو کچھ بھی فیصلہ ہوگا، مبنی بر حقیقت ہوگا۔
قرونِ اولیٰ کے ادوار میں کہیں بھی ایسی مثال نہیں ملتی جہاں قاضی تک رسائی کے لیے وکلا کی ضرورت پڑتی ہو۔ قاضی ہوتا تھا، مدعی ہوتا تھا اور ملزم، کسی بھی چوتھے فرد کا کہیں سے کہیں تک کوئی وجود نہیں ہوا کرتا تھا، اس کے باوجود پوری تاریخ کسی بھی قسم کی افرا تفری کے مناظر پیش کرتی نظر نہیں آتی۔ اگر آج بھی پاکستان کی ساری عدالتیں توڑ دی جائیں اور شرعی عدالتیں پنچایت کی صورت میں گلی گلی محلوں محلوں لگا دی جائیں اور ہر عدالت کو عدالت عظمیٰ کا درجہ حاصل ہو تو میں اپنے پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی کو بھی کوئی کام خلاف شرع یا خلافِ قانون کرنے کی جرأت نہیں ہو گی۔ بے شک اس بات کا احتمال ضرور ہے کہ بہت سارے غلط فیصلوں کا شکار بے قصور بھی ہوں گے لیکن یہ طے ہے کہ نہ صرف امن قائم ہو جائے گا بلکہ لوگ صرف اسی وقت عدالتوں سے رجوع کریں گے جب ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا۔