بارش، سیلاب اور سقوط ڈھاکا

476

حالیہ برساتوں کے اسپیل موضوع بحث ہیں۔ بحث جہاں یہ ہے کہ پانی خوب برسا اور زمین جل تھل ہوگئی اور پورا نظام کو اتھل پتھل کرکے رکھ دیا۔ اور برسات اتنی برسی کہ حکمران اس معروف جملہ کے مصداق بن کر رہ گئے ’’اتنا برس کے وہ جا نہ سکیں‘‘۔ حکمران تباہی اور بربادی کے ساتھ نااہلی کی بدولت یہ حوصلہ ہی نہیں کر پارہے ہیں کہ وہ متاثرہ افراد کے پاس جائیں اور ان کے غیظ و غضب کا سامنا کریں۔ یہ بارش کئی حوالوں سے زیر بحث ہے آیا یہ قدرتی آفت ہے؟ ہاتھوں کی کمائی ہے؟ یا مسلط کردہ ہے؟ تینوں قسم کی بحثیں عروج پر ہیں اور ہر اک کی بات میں وزن بھی ہے۔ جو طبقہ اس کو مسلط کردہ کہہ رہا ہے وہ اک خطرناک منصوبہ کی نشاندہی بھی کررہا ہے۔ بیرون ملک پلٹ نے ایک ماہر موسمیات کی بحث کے حوالے سے کہا کہ لندن و دیگر علاقوں میں سندھ اور بلوچستان کے قوم پرست علٰیحدگی پسند طبقہ ایک ہی پلیٹ فارم پر مصروف ہے۔ یہ
بارش ان کے نظریات کی آبیاری کرنے کے لیے مسلط کی گئی ہے اس بارش سے سندھ کا حصہ متاثر ہوا، بلوچستان زیر آب آگیا تو پنجاب میں بھی بارش راجن پور اور ڈیرہ غازی کے علاقوں کو غرق آب کرگئی۔ یہ علاقہ بھی بلوچ آبادی کا گڑھ ہے جہاں 60 فی صد سے زائد بلوچ بستے ہیں۔ یہ سندھ اور بلوچ کی آبادی پر بارش کیوں برسی؟ دیگر علاقہ اس کی لپیٹ سے باہر کیوں رہے یا رکھے گئے۔ ان کے خیال میں اس برسات کی تباہ کاریوں سے ان برادریوں میں اشتعال پھیلے گا اور بھوک بغاوت کو جنم دے گی۔ اور یوں علٰیحدگی پسند گروہوں کو تقویت کا سامان ہوگا۔ اُن کے مطابق سابقہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی میں بھی سیلاب اور برسات نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا جو 1970-69 میں ہوئیں اور ہزاروں افراد کی ہلاکت نے اس سال ہونے والے انتخاب میں شیخ مجیب الرحمن کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا، جس نے مشرقی پاکستان کی تباہی مغربی پاکستان میں مقیم حکمرانوں پر ڈالی کہ ان کی عدم توجہی کی بدولت یہ ہلاکتیں اور تباہیاں ہوئیں اور اس پروپیگنڈے نے متاثرہ افراد کو شیخ مجیب الرحمن کے گرد جمع کردیا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نجوم کے ماہرین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مشرقی پاکستان علٰیحدگی کے وقت جو ستاروں کو ملاپ ہوا تھا وہ اب پھر 2022 کی آخری سہ ماہی میں ہونے والا ہے اور اُس ہی قسم کے خطرات کا خدشہ ہے۔ سابق وزیراعظم معراج خالد تو امریکی تھنک ٹینک کے حوالے سے بتا چکے ہیں کہ امریکا تو ایک نقشے کے مطابق پاکستان کے حصہ بخرے دکھا چکا ہے۔ ماہرین تو خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ یہ برسات امریکا نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک مخصوص خطے پر مسلط کی ہے اور ایران بھی امریکا پر اس قسم کا الزام پہلے ہی لگا چکا ہے اور یہ اُس سے بعید بھی نہیں اس نے ڈبل گیم کرکے مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کی راہ ہموار کی تھی کہ پاکستان نے امریکا کو چین تک راہداری فراہم کی جس سے اور سخت ناراض ہوگیا اور اس نے بھارت سے معاہدہ کرکے پاکستان کے دو ٹکڑے کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور پاکستان کے حکمران امریکا کے بحری بیڑے کی آمد کی راہ تکتے رہے۔ اس برسات پر یہ خدشہ اور تبصرہ بھی غور طلب کرنا ضروری ہے سی پیک پر امریکا کی ناراضی ڈھکی چھپی نہیں اور پاکستان سزاوار ٹھیرایا ہوا ہے۔