جو اسلام کی مرضی، وہ میری بھی مرضی

391

میری مرضی کا شعار، اہل اسلام کی نوجوان نسل، خصوصاً خواتین اور طالبات کے دائرے میں دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کی بلندیوں کو سر کر چکا ہے۔ مغربی تہذیب سے مسحور مسلمان گھرانوں کی خواتین کے مقولے ’’میراجسم میری مرضی‘‘ کا ذکر آنے پر وہی خواتین اب طرح طرح کی صفائیاں پیش کر رہی ہیں، ان میں سے ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھنے والی خواتین کی آنکھیں کھل رہی ہیں اور بہت سوں پر مغرب کی عریانی اور فحاشی کی مہم کا فسوں ٹوٹ رہا ہے۔ جب مادر پدر آزاد مغربی تہذیب کی گود میں پروان چڑھی انسان نما پتلیوں کو پاکستان اور عالمِ اسلام کی بھولی بھالی مسلم خواتین ننگی ثقافت کی دلدادہ مخلوق کو کنواری ماؤں کو مثالی کردار کے طور پر پیش کرتے ہوئے دیکھتی ہیں تو مغرب کے ثقافتی اور تہذیبی حملے کی ڈوریاں انہیں انسانوں سے زیادہ شیاطین کی انگلیوں سے لپٹی دکھائی دیتی ہیں لیکن ہمارے ہی اسلامی ممالک کے کئی والدین ایسے بھی ہیں جن کے سر پر اپنی منہ زور اولاد کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اور وہ ان کی اخلاق سوز حرکات پر خاموش تماشائی کا گھناؤنا کردار ادا کرکے اپنے لیے کبھی سرد نہ پڑنے والی آگ کا سودا کر رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں اس وقت بھی نہیں کھلتیں جب یہ سرکش اولاد والدین کی عزت وقار کو خاک میں ملا کر کورٹ میرج کی اسموک اسکرین تان کر ’’گناہ‘‘ کو معصومیت بنانے کی ناکام کوشش کررہی ہوتی ہے۔ پھر اوپر سے ’’میراجسم میری مرضی‘‘ کا حیا سوز لبادہ پست ہمت اور فی الاصل شریک جرم والدین کی عزت وغیرت کا جنازہ نکالنے پر منتج ہوجاتا ہے۔ لیکن مسلم ممالک کے نسوانی اور مردانہ کرداروں کے اس درجہ کھوکھلے پن کے باوجود نہ صرف پاکستان بلکہ دنیائے اسلام کی لاکھوں خواتین اسلام کے سایہِ ناموس آفریں میں پناہ لینے پر شاداں و فرحاں ہیں۔ عیسائیت اور ہندومت کا نام جپنے والی تہذیبیں دم توڑ رہی ہیں۔ لاکھوں نوجوان مردو زن روزانہ اسلام کے عادلانہ نظام کو اپنا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھارت کے ہر ہندو گھر میں کہرام مچا ہے۔ نریندرا مودی اور اس کے مہاشوں نے مسلمان کی زندگی کو اجیرن کررکھا ہے۔ بے سروپا الزام لگا کر انہیں قتل کرنا، ان کی جائداد اور مساجد کو مسمار کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔
پھر بھی مسلمان کا صبر اور ظلم کے آگے مقاومت کا مثالی مظاہرہ کفر کی سمجھ سے باہر ہے۔ ایسے ہی عریانی اور بے حیائی کے مراکز مغربی ممالک امریکا، سویڈن، اور برطانیہ وغیرہ میں اسلام کی دعوت کے نتیجہ میں ہزاروں نوجوان مردو زن کا اسلام کے سایہ عاطفت میں پناہ لینے پر خوشی محسوس کرنا ایک چشم کشا حقیقت ہے۔ دور حاضر میں اسلام کے ہر دلعزیز مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی کوششوں سے ہزاروں ہندو مردو زن تائب ہوکر بطمانیت قلب و ذہن اسلام کا حلقہ اپنی گلے میں ڈالنے پر فخر و مسرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر دینی تحریکات بالخصوص تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کی کوششوں سے بھی اسلام مغربی ممالک کی نوجوان نسل کی ذہنی آبیاری کرنے اور انہیں اپنی آغوش میں لینے کی گرانقدر کوششوں کے باعث اسلام دنیا کا سرعت سے پھیلنے والا دین اور نظریہ بن گیا ہے۔ وللہ الحمد۔