اسلام آباد: ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگ لی۔ معافی نامے میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جج کا نام بیان حلفی میں لکھنا تھا۔غلط فہمی کی بنا پر اس وقت کے سینئر جج کی جگہ ہائیکورٹ کے موجود حاضر جج کا نام لکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ لان میں چائے پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کے دوران اُن کے منہ سے سینئر پیونی جج کے الفاظ بار بار سنے ۔
رانا شمیم نے مؤقف اختیار کیا کہ بیان حلفی3 سال بعد 72 سال کی عمر میں ذہنی دباؤ میں لکھا ۔غلطی پر گہرا دکھ ہے اور عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں۔ عدلیہ کو اسکینڈلائز کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جب سے پروسیڈنگ شروع ہوئی ہے تب سے دکھ اور افسوس کا اظہار کر رہا ہوں ۔ میری غلط فہمی کی بنا پر جو صورت حال پیدا ہوئی شروع دن سے اس کا اظہار کرتا آرہا ہوں ۔ اس عدالت کا کوئی حاضر سروس جج اس تنازع میں شامل نہیں۔ اپنی غلط فہمی پر اس عدالت کے تمام حاضر سروس ججز سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔
رانا شمیم نے جواب میں عدالت سے استدعا کی کہ مؤدبانہ درخواست ہے کہ میری معافی قبول کی جائے۔ رانا شمیم نے اپنے وکیل عبداللطیف آفریدی کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریری معافی نامہ جمع کرا دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اس عدالت کا توہین عدالت کے حوالے قانون طے ہے۔ ججز کے فیصلوں پر آپ بے شک تنقید کریں، آپ کو توہین عدالت میں نہیں بلائیں گے۔ جو اتنا بڑا الزام اس عدالت پر لگایا گیا، عدالت اسے نظر انداز نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت آپ کو ایک ہفتے کا وقت دیتی ہے ۔ توہین عدالت کی پروسیڈنگ ہے اس کی حساسیت کو عدالت سمجھتی ہے۔ بیان حلفی پر قائم رہنا اور معافی، دونوں ساتھ نہیں چل سکتے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے رانا شمیم کو ایک اور بیان حلفی جمع کرانے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دے دیا۔