سیلاب کے بعد وبائی امراض کا خطرہ

474

سیلاب منہ موڑ کر وبائی امراض کے خطرات کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اب ایک پانی لوگوں کے آنکھوں میں ہے دوسرا وہ پانی ہے جو ہر جانب دکھائی دے رہا ہے۔ یوں تاریخ کے بدترین سیلاب کی آزمائش اور بلائیں چہار جانب موجود ہیں ملک کی تاریخ کے اس تباہ کن سیلاب نے اربوں کھربوں کی مالیت کو روند ڈالا اور ملک کے کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا۔ اربوں، کھربوں روپے مالیت رکھنے والے سیاست دان، حکمران تماشا دیکھ رہے ہیں، انہیں مال کی محبت نے سنگ دل بنا دیا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں سارا بنیادی ڈھانچہ خاک میں مل گیا ہے، املاک اور فصلیں تباہ و برباد ہوگئی ہیں، ملک کا 30 فی صد رقبہ زیر آب ہے۔ لوگوں کے بستر، برتن اور بنیادی ضرورت کی دیگر اشیا کئی کئی فٹ اونچے پانی میں ڈوبے رہنے سے استعمال کے قابل نہیں رہی ہیں۔ پانی کی سڑانڈ سے نئی نئی بیماریاں پھوٹ رہی ہیں اور علاج معالجہ کی سہولتیں ناپید یا بہت کم ہونے سے انسانی جانوں کو خطرات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ سیلاب سے مال و املاک کے نقصان اور جانوں کے اتلاف کے بعد اب بڑے پیمانے پر طرح طرح کی بیماریاں انسانی جانوں کو نگلنے کے لیے بے تاب ہورہی ہیں۔ عالمی صحت کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سیلاب سے ملک بھر کے 154 میں سے 116 اضلاع متاثر ہوئے ہیں اور جب کہ صحت کے کم از کم 888 مراکز کو نقصان پہنچا ہے۔ پہلے ہی ملک کورونا، جلدی امراض، ملیریا، ڈائریا، ڈینگی بخار اور پولیو جیسے امراض کی بڑھتی ہوئی تعداد اب جو لاکھوں تک جا پہنچی ہے محدود وسائل و عملے سے نبرد آزما ہے اور صحت کے محکمہ کا سانس سینے میں نہیں سما رہا ہے۔ ویسے بھی سندھ میں اسپتالوں
کے نام پر بڑی بڑی عمارتیں ضرور ہیں مگر سہولتوں سے محروم ہیں، مسیحا کہلانے والے اندرون سندھ میں تو ہفتہ عشرہ میں وزٹ کرنے اسپتال آتے ہیں اور نیلی پیلی گولیوں سے مریض کو ٹرخا کر اور گائوں والوں سے مکھن روٹی کھا کر چلے جاتے ہیں۔ اب سیلاب کا بہانہ ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ برساتی پانی کو سمندر کی راہ جلد سے جلد دکھائی جائے، مگر ایسا کیونکر ہوسکتا ہے، ہر طاقتور نے کمزور کی طرف پانی کا رُخ موڑ کر اُلٹی گنگا بہائی اور کوشش کی کہ دوسرا برباد ہوجائے اور وہ بچ جائے اور سب سے پہلے ہونے والا کلچر جو حکمرانوں نے دیا وہ تیزی کے ساتھ قوم میں منتقل ہوا اور یوں وہ صرف اپنے آپ کو محفوظ کرنا اور اپنے لیے سہولتیں لینا جانتے ہیں اور برسات کا پانی بدبودار جوہڑ میں تبدیل ہورہا ہے، لوگ ایک دوسرے پر اس دوسرے پر تباہی کا الزام لگارہے ہیں اور حکمران اپنی گرہ کھولنے کے بجائے امدادکے لیے عالمی اداروں سے اپیلوں پر اپیل سے گزارہ کررہے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی اپیل پر 16 کروڑ ڈالر کی امداد کو اپنے کھاتے میں ڈال کر ثواب کی امیدیں باندھ رہے اور سرخرو ہورہے ہیں۔
برساتی پانی کے جوہڑ وبائی امراض کی فیکٹریاں بن رہے ہیں، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کراچی نے بھی اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں اور بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو اموات میں اضافے کی لہر خدانخواستہ موجود برسات کی اموات سے کئی گناہ بڑھ سکتی ہے۔ پیما سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں طبی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ ڈاکٹروں نے بھی کہا ہے کہ حکومت ممکنہ طبی بحران سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی کا اعلان کرے۔ طبی ماہرین کے پینل قائم کرے اور وبائی امراض سے بچائو کے لیے قومی پالیسی مرتب کرے، یہ کام حکومت ہی کرسکتی ہے اور فلاحی تنظیمیں ان کی مدد کرسکتی ہیں مگر حکومت تو سیاست میں الجھی ہوئی ہے اس کی سوچ کا محور کچھ اور ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں حکومت تمام وسائل کو بروئے کار لا کر فیلڈ اسپتال قائم کرے، ہر ضلع میں کنٹرول سینٹر قائم کیے جائیں جن میں عام امراض کا بنیادی علاج اور بچائو کی سہولتیں اور دوا موجود ہوں، اگر اس کام میں بھی سیلاب سے بچائو کی غفلت والا معاملہ کیا گیا تو مال کے ساتھ جانوں کا زیاں کا دوہرا معاملہ سخت ترین ہوگا ناقابل برداشت ہوگا اس وقت متاثرین کے کیمپ خاص طور پر متاثر ہورہے ہیں، اطراف کے گندے پانی کے جوہڑ ان کو جلد، پیٹ کی بیماریوں سے دوچار کررہے ہیں جہاں صفائی کا فقدان ہے اور پانی پینے کا بحران بیماریوں کا معاون بنا ہوا ہے۔ متاثرین آلودہ پانی پر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔
دیہی علاقوں میں غربت کی وجہ سے گائے بھینس کے اوپلے سے دھواں کرکے مچھروں کو بھگانے کی تدبیر کی جارہی ہے جس سے سانس کی بیماریاں بھی پیدا ہورہی ہیں۔ مچھر دانیاں جو پانچ، سات سو روپے فی کس مل رہی تھیں منافع خوروں نے اُس کے نرخ ڈیوڑھے کردیے ہیں اور لٹے پٹے افراد کہاں سے خریدیں۔ یوں ہی مچھروں سے بچائو کی چیزیں بھی نایاب اور مہنگی ہورہی ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں نے برسات کے موقع پر پہلے پلاسٹک کے ترپالوں کی آڑ میں خوب مال سمیٹا، اب اُن کی کمائی کا ہدف مچھر دانیاں، مچھروں کی روک تھام کی ادویہ و اشیا ہیں، اور پرائس کنٹرول کمیٹی کا محکمہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا ہے۔ مچھروں اور مکھیوں سے بچائو کے اسپرے جو پہلے ڈی ڈی ٹی کے ہوا کرتے تھے اور ملیریا بچائو کا محکمہ اس کا اس سیزن میں آرام سے سوتے تھے۔ یہ عالمی امداد کے طور پر دوا ملتی تھی اب بلدیہ مٹی کے تیل کے اسپرے کراتی ہے جو نہ اس عذاب کا سدباب کرتی ہے صرف رسم پوری کرتی ہے۔ بلکہ فضول میں فنڈ کا زیاں اور محض خانہ پُری سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔
یہ خبر خوش آئند ہے کہ ملک کا سب سے بڑا فیلڈ اسپتال کراچی میں قائم کردیا گیا ہے۔ ترجمان امارتی سفیر کے مطابق پاک امارت موبائل فیلڈ اسپتال گورنمنٹ ڈگری کالج عبداللہ شاہ غازی اسکیم نمبر 33 میں قائم کیا گیا ہے جہاں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کو علاج معالجہ کی مفت سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ فیلڈ اسپتال میں گائنی، اطفال، قلب، میڈیسن اور جلدی امراض کے ماہر ڈاکٹر موجود ہیں جب کہ اسپتال میں ادویات کی فراہمی خون کے ٹیسٹ مفت جاری ہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ بچوں اور خواتین کے لیے اسپتال میں صحت آگاہی سیشنز بھی منعقد کیے جارہے ہیں۔ پاکستان کے عوام نے زاہد گونگ انیشیٹو امارات اور امارتی سفارت خانہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔
اس اسپتال کے قیام سے کراچی پہنچنے والے یا پہنچانے والے برسات متاثرہ ہی استفادہ کرسکیں گے، اندرون سندھ میں نواب شاہ جو عین سندھ کے وسط میں قائم ہے یہ شہر سابق صدر آصف علی زرداری کا مرکز سیاست بھی اس میں وہ حکومتی سطح پر اس قسم کا اسپتال اس عمارت میں جو کڈنی سینٹر کی عمارت میں قائم کرادیں تو اندرون سندھ کے عوام کو بہترین سہولت کا سامان کرسکتی ہے۔ زرداری ہائوس نوابشاہ ان کے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
صورت حال کچھ یوں نظر آرہی ہے کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ ہر اک ٹوٹ پڑا مال یتیم سمجھ کر وبائی امراض سے بچائو اور سیلاب زدگان کی امداد کے نام پر ایرے غیرے، نتھو خیرے کمائی خاطر گھر بھرنے کے لیے کیمپ لگا کر رقم اور امدادی سامان بٹور رہے ہیں اور جعلی تنظیموں نے جھٹ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر خوب لوٹ مار کی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان کالی بھیڑوں پر کڑی نگاہ رکھی جائے اور حکومت پڑتال کرکے تنظیموں کو رجسٹرڈ کرے اور اُن کے علاوہ غیر رجسٹرڈ تنظیموں کو کسی بھی قیمت پر چندہ کرنے اور امدادی کیمپ لگائے جانے کی اجازت ہی نہ دی جائے بلکہ ان کو کڑی سزا کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ زیادہ دور کیوں جائیں ابھی ہفتہ عشرہ قبل ایک این جی او کی میرپور خاص میں گوداموں میں 40 کروڑ روپے مالیت کی چھے لاکھ مچھر دانیاں جو عوام میں تقسیم کرنے کے لیے دی گئی تھیں وہ برآمد ہوئیں جو کورونا کے دور میں دی گئی تھیں مگر اس کے بعد پتا نہ چل سکا کہ ذمے داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی۔ المیہ یہی تو ہے، اب وزیراعلیٰ سندھ نے 6 لاکھ راشن بیگ متاثرہ افراد میں تقسیم کرنے کے لیے تیار کرنے کا اعلان کیا ہے تو اُن بیگ کے ساتھ 6 لاکھ برآمد شدہ مچھر دانیاں بھی تقسیم کردی جائیں۔ اب سیلاب کے بعد وبائی امراض کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اگر حکومت نے مناسب تدابیر نہ اپنائی تو پھر لکیر پیٹنے کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
برسات سے زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوتی ہے، روڈ رستہ پختہ ہونے کی وجہ سے پانی زمین میں کم جذب ہونے سے پانی کی سطح نیچے ہونے لگی ہے۔ قدرت کا یہ حیرت انگیز نظام ہے کہ سمندر کا کھارا پانی زمین جذب کرتی ہے وہ اضافی ہو جائے تو خود کار سسٹم کے تحت زیر زمین سفر طے کرکے سمندر کے پانی سے جا ملتا ہے۔ حکومت نے 15 غیر ملکی این جی اوز کو سیلاب زدہ علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ جن میں برطانیہ کی ٹیئر فنڈ اور مسلم ہینڈز، ہیلپ انٹرنیشنل ہیومین اپیل کشمیر آرفن ریلیف، امریکن این جی اوز کیئر انٹرنیشنل، مرسی کور اور کیتھولک، فرانس کی این جی اوز میں سکیورا اسلامک فرانس، ایم ایس ایف، ترکی کی معازف فائونڈیشن، جاپان کی این جی اوز اے اے آر کے این کے، جرمن کی این جی اوز لائف لائن کرسچن ڈویلپمنٹ اور سی بی ایم ای وی شامل ہیں۔ ان این جی اوز پر بھی کڑی نگرانی رکھی جانی ضروری ہے اور حکومت ان کا ایک مربوط نظام تشکیل دے اور ان کو ایک پروگرام دیں جس کے مطابق وہ متاثرین کے اندر کام کرسکیں۔ ان کو کھلی چھوٹ ہرگز نہ دی جائے۔ یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے 30 لاکھ سے زائد بچوں کی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور غذائی قلت سے جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ایک اہم سوال یہ بھی گشت کررہاہے کہ سیلاب کیا عوامی سوچ کو تبدیل کرے گا۔ سابق مشیر حکومت سندھ مشتاق احمد راہو نے تو مقتدر حلقوں سے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سول نافرمانی تو شروع ہوچکی ہے اب ڈر ہے کہ سول وار نہ شروع ہوجائے۔