برطانیہ کی نئی وزیر اعظم کو سنگین مسائل کا سامنا

620

برطانیہ کی پچھلی وزیر خارجہ لز ٹرس حکمران ٹوری کی قائد کا انتخاب جیت کر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوگئی ہیں یوں وہ تیسری خاتون وزیر اعظم ہیں جنہوں نے یہ عہدہ ہندوستانی نژاد وزیر خزانہ رشی سونک کو شکست دے کر حاصل کیا ہے۔ رشی سونک کے ساٹھ ہزار تین سو نناوے ووٹ کے مقابلے میں انہوں نے ۸۸ ہزار ۳سو چھبیس ووٹ حاصل کیے۔
سابق وزراء اعظم بورس جانسن اور ٹریسا مے کی طرح انہوں نے بھی عام انتخاب کا میدان جیت کر یہ منصب حاصل نہیں کیا بلکہ حکمران پارٹی میں انتخاب کے راستے وہ اس منزل تک پہنچی ہیں۔ حکمران پارٹی نے یہ راستہ اس لیے منتخب کیا کیونکہ اسے خطرہ ہے کہ اس وقت جو حالات ہیں خاص طور پر سنگین اقتصادی حالات اس میں اسے کامیابی حاصل نہیں ہو سکے گی۔ مبصرین کی رائے ہے کہ رشی سونک کو شکست دینی تو بہت آسان تھی لیکن وزیر اعظم کی حیثیت جو کٹھن مسائل ہیں جن میں عوام کے اخراجات زندگی میں روز افزوں اضافے کا مسئلہ سر فہرست ہے ان کا سامنا بہت مشکل ہے۔ لوگوں کو اب احساس ہو رہا ہے کہ انہوں نے بریکزٹ قبول کر کے غلطی کی اور یورپ سے اپنا رشتہ توڑا نتیجتاً اس کا یورپ سے اقتصادی رابطہ منقطع ہوگیا اور یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں اور نہ اسے کوئی چھپا سکتا ہے کہ عالمی تپش میں اضافہ سے عالمی حرارت تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کے نتیجہ میں گلیشیر پگل رہے ہیں اور ایسے خوفناک سیلاب امڈ رہے ہیں جیسے کہ خوفناک سیلابوں نے اس وقت پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
ادھر یورپ میں سخت تپش کی وجہ سے جنگلوں میں آگ نے سنگین مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔ ادھر برطانیہ میں انرجی کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔ یک طرف گیس اور تیل کی کمی کا سامنا ہے اور اسی کے ساتھ ان کی قیمتوں میں اضافہ پریشان کن حد تک بڑھ رہا ہے۔ نئی برطانوی وزیر اعظم لز ٹرس کو عالمی کساد بازاری کا بھی سامنا ہے اور صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ یورپ بھی اس کی لپیٹ میں ہے جس کے اثرات سے برطانیہ نہیں بچ سکتا۔ غرض برطانیہ ان مسائل میں اسی طرح سے گھرا ہوا ہے جس طرح پاکستان اس وقت سیلاب میں گھرا ہوا ہے۔