’’Leak‘‘ انگریزی لفظ ہے، اس کے معنی ہیں: ’’سوراخ، دَرز، رسائو اور ٹپکنا‘‘ وغیرہ، یعنی کسی چیز کا رِس رِس کر باہر آنا۔ آج کل اسے ذرائع ابلاغ میں ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، یعنی کسی خاص پوشیدہ خبر یا معلومات یا رپورٹ کو دانستہ اِفشا کرنا تاکہ اسے کسی کے خلاف استعمال کیا جاسکے، جیسے وکی لیکس، پاناما لیکس، ڈان لیکس‘‘۔ ’’میموگیٹ اور واٹر گیٹ‘‘ کے ساتھ اگرچہ اسکینڈل کا لاحقہ لگایا گیا تھا، لیکن یہ بھی ایک طرح کی لیکس ہی تھیں۔ آسٹریلین نژاد جولین اسانج ’’وکی لیکس‘‘ کے ذریعے وائٹ ہائوس کے خفیہ ریکارڈ کو سامنے لائے تھے، شاید اُن کی مختلف ویب سائٹس اور ای میل ریکارڈ کو انہوں نے ہیک کرلیا تھا۔ اسی بنا پر وہ آج تک امریکا کو مطلوب ہیں، لیکن تا حال انہیں امریکا کے حوالے نہیں کیا گیا، وہ لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں طویل عرصے تک پناہ لیے رہے، پھر جیل گئے، لیکن ابھی تک برطانوی عدالتوں نے انہیں ملک بدر کرنے اور امریکا کے حوالے کرنے کے احکام صادر نہیں کیے۔
سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کو ’’واٹر گیٹ اسکینڈل‘‘ کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر اس کی پاداش میں انہیں مستعفی ہونا پڑا، کیونکہ اُن کی طرف سے اپوزیشن کی جاسوسی کا انتظام کیا گیا تھا، واٹر گیٹ کمپلیکس واشنگٹن میں واقع ہے۔ ابتدا میں رچرڈ نکسن نے جاسوسی کے الزام کا انکار کیا، لیکن امریکی سینیٹ کی کمیٹی نے تحقیقات جاری رکھیں اور پھر نکسن کے مواخذے کا فیصلہ کیا، لیکن مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنے کے بجائے صدر نکسن اپنے نائب صدر جیرلڈ فورڈ کو اقتدار تفویض کر کے وقت سے پہلے مستعفی ہوگئے تھے، بعد میں صدر فورڈ نے انہیں معاف کردیا تھا۔
عالمی سطح پر آف شور کمپنیوں کے حوالے سے پاناما لیکس سامنے آئیں، اُن میں پاکستان کے چار سو چھتیس لوگوں کے نام تھے، لیکن انہیں صرف اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو برطرف کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور پھر باقی چار سو پینتیس کا عدالت عظمیٰ سمیت کسی ادارے نے نام تک نہ لیا۔ اسی طرح پنڈورا لیکس سامنے آئیں، اُن میں بہت سے پاکستانیوں کے نام تھے، لیکن کسی نے ان کو ہاتھ نہیں لگایا، الغرض پاکستان میں پاناما لیکس کو محض نواز شریف کو وزارتِ عُظمیٰ سے معزول کرنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ پھر نیب کے ایک جج ارشد ملک کا ایک آڈیو بیان لیک ہوا، اس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ اُن سے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے اداروں نے دبائو ڈالا تھا، لیکن پھر اُس لیک کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
اس کے بعد گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کا ایک حلفیہ بیان انصار عباسی نے لیک کیا، اس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار پر الزام لگایا کہ گلگت بلتستان کے دورے کے موقع پر وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے کسی جج کو فون پر ہدایات دے رہے تھے کہ نواز شریف کو ریلیف نہیں دینا، اس کے لیے اداروں کا دبائو ہے، اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے اسے توہینِ عدالت قرار دے کر ازخود نوٹس لیا، لیکن وہ کیس بھی تاحال انجام تک نہیں پہنچ پایا۔
اس دوران مریم نواز کے بعض آڈیو پیغامات لیک کیے گئے، پھر عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی آڈیوگفتگو لیک ہوئی، اس میں وہ پی ٹی آئی میڈیا سیل کے انچارج ڈاکٹر ارسلان خالد کو ہدایات دے رہی تھیں: ’’اُن پر اور فرح شہزادی پر گند اچھالا جائے گا، یعنی الزامات لگائے جائیں گے، آپ ان سب کو ’’ملک سے غداری کے ساتھ جوڑ دیں‘‘، لیکن پھر اس کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
اس دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کی ایک گفتگو بھی لیک ہوئی، وہ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کے ایک Cypher مراسلے کی بابت تبصرہ کر رہے تھے: ’’Let’s Play with it‘‘، یعنی ہمیں اس کے ساتھ کھیلنا چاہیے اور اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ نوٹ: Cypher Message سفراء کے برقی پیغامات ہوتے ہیں جو اشاراتی زبان میں ہوتے ہیں اور یہ اشاراتی اصطلاحات سفیر اور وزارتِ خارجہ کے درمیان طے ہوتی ہیں، انہیں مُبہم اس لیے رکھا جاتا ہے تاکہ یہ پیغام مخفی رہے اور کوئی غیر متعلقہ شخص یا ادارہ اسے چوری نہ کرسکے۔ اس سائفر پیغام میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکی انڈر سیکرٹری ڈیوڈ لو نے کہا ہے: ’’اگر پاکستان میں عمران خان کی حکومت برقرار رہی تو امریکا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے‘‘، لیکن حکومتِ پاکستان اور قومی سلامتی کمیٹی نے اس دعوے کی تردید کی اور امریکی حکومت نے بھی ایک سے زائد بار اس کی تردیدکی، لیکن اس کی حقیقت کو جانچنے کے لیے کوئی باقاعدہ تحقیقاتی کمیشن نہیں بنایا گیا، اگر بنایا بھی جاتا اور اُس کی تحقیقات کے نتائج خان صاحب اور پاکستان تحریک انصاف کے موقف کے خلاف آتے تو وہ یقینا اُسے ردّ کردیتے۔ لیکن اب کافی دنوں سے خان صاحب نے تبدیلیِ حکومت کے لیے امریکی سازش کا بیانیہ چھوڑ دیا ہے، کہا جاتا ہے کہ نئے امریکی سفیر کے ساتھ عمران خان کی ایک خفیہ ملاقات بھی ہوگئی ہے، اس نے خیبر پختون خوامیں پی ٹی آئی حکومت کو چھتیس زیرو میٹر گاڑیوں کا تحفہ بھی دیا ہے۔ مزید معلوم ہوا ہے کہ خان صاحب نے امریکا میں اپنا تاثّر بہتر بنانے کے لیے پچیس ہزار ڈالر ماہانہ کے عوض ’’فینٹن آرلوک‘‘ نامی ایک لابنگ فرم کی خدمات بھی حاصل کی ہیں، الغرض اب وہ امریکا کی ڈارلنگ بننا چاہتے ہیں، اسی کو آج کل ہماری سیاسی اصطلاح میں ’’لاڈلا‘‘ کہتے ہیں۔ نوٹ: واضح رہے کہ حکومتوں یا افراد کے لیے لابنگ کرنا امریکا میں قانونی معاملہ ہے اور اس کے لیے ادارے باقاعدہ رجسٹرڈ کیے جاتے ہیں۔
اب تازہ ترین لیک سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی آئی ہے، اس میں وہ وزیر خزانہ خیبر پختون خوا تیمور جھگڑا اور وزیر خزانہ پنجاب محسن لغاری سے بات کر رہے تھے اور اُن کو ہدایات دے رہے تھے کہ پارٹی پالیسی کے مطابق وہ باقاعدہ خط لکھ دیں کہ وہ آئی ایم ایف کی اُس شرط کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اپنے وسائل میں سے ایک معیّنہ فاضل رقم وفاق کو واپس کریں گے تاکہ وہ قرضوں کی اقساط ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔ اُن سے وزیر خزانہ پنجاب محسن لغاری نے پوچھا: ’’ایسا خط لکھنے سے ملک کو نقصان تو نہیں پہنچے گا‘‘، انہوں نے کہا: ’’نقصان تو پہنچے گا ‘‘، لیکن یہ چیئرمین کی ہدایات ہیں اور پارٹی پالیسی ہے اور پھر فواد چودھری اور خیبر پختون خوا کی حکومت نے واشگاف الفاظ اس کی توثیق بھی کردی ہے، یعنی اس آڈیو بیان کو اپنایا ہے، حکومت اور بعض غیرجانبدار مبصرین اسے ریاست سے غداری قرار دے رہے ہیں۔ نوٹ: واضح رہے شوکت ترین سدا بہار شخصیت کے مالک ہیں، وہ ایسا پرزہ ہیں جو ہر حکومت کی مشینری میں فِٹ ہوسکتے ہیں، فلسفے کی اصطلاح میں اسے ’’ہیولیٰ‘‘ یا ایسی روح کہا جاتا ہے جو ہر صورتِ جسمیہ کے مطابق ڈھل جاتا ہے، ایسے لوگوں کے بارے میں ضرب المثل ہے: ’’نہ ساون سوکھے، نہ بھادوں ہرے‘‘، یعنی ہر سیاسی موسم اس کے لیے سازگار ہو اور وہ ہر طرح کے حالات میں فِٹ ہوجائے۔ مثلاً: اٹھارہویں آئینی ترمیم جس کا آج کل بہت شُہرہ ہے، ہمارے اداروں کو بھی اس کے بارے میں تحفظات ہیں اور پی ٹی آئی حکومت بھی اس سے الرجک رہی، لیکن کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ پیپلز پارٹی کے اُس دورِ حکومت میں اُن کے وزیرِ خزانہ شوکت ترین ہی تھے اور ان کا اس میں کردار تھا۔
الغرض یہ ساری داستان بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی لیکس کے بارے میں جب تک کوئی قانون نہ بنے کہ ان کی تحقیقات کن بنیادوں پر ہوںگی اور ان پر کیا احکام مرتب ہوں گے، محض لیکس سے کچھ نہیں ہوگا۔ چنانچہ نیب کے سابق جج ارشد ملک کی آڈیو لیک کو اُس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انجام تک پہنچانے کے بجائے کمالِ مہارت سے دفن کردیا، یعنی داخل دفتر کردیا، عدالتی زبان میں کہا جاتا ہے: ’’مقدمہ نمٹا دیا‘‘۔ حالانکہ اس طرح کی لیکس ہمارے پورے نظامِ عدل پر سوالیہ نشان ہیں۔ شروع میں جسٹس کھوسہ نے اس کے بارے میں بڑے سخت ریمارکس دیے تھے، لیکن وہ کسی واضح فیصلے یا تحقیقات کا باعث نہ بن سکے۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج ایسی ریکارڈنگ کو فرد کی رازداری میں دخل اندازی سمجھتے ہیں، لیکن اعلیٰ عدالتوں کو بھی معلوم ہے کہ دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیاں قومی مفادات اور ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے اس طرح کی خفیہ ریکارڈنگ کرتی رہتی ہیں اور اگر کوئی ایسی گفتگو ریکارڈ ہوجائے جس سے عیاں ہو کہ ملک کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے، اس کے باوجود اس کے خلاف کارروائی نہ کی جاسکے، تو پھر اتنے جدید اور نہایت قیمتی جاسوسی کے آلات خریدنے اور ان کے استعمال کرنے کا ملک وقوم کو کیا فائدہ ہوگا۔
لہٰذا ایک جامع قانون کی ضرورت ہے، جو خالص نجی معلومات اور ایسی معلومات میں فرق کرسکے جس کے اثرات ملک وقوم پر مرتب ہوتے ہیں۔ امریکا اور مغربی ممالک میں عام لوگوں کے لیے بہت سی باتیں عیب نہیں سمجھی جاتیں، لیکن جو لوگ مسندِ اقتدار پر یا قومی نمائندگی کے کسی منصب پر فائز ہوں، اُن کے لیے معیارات نہایت سخت اور کڑے ہوتے ہیں۔ ماضی قریب میں محض جنسی ہراسانی کے الزام پر امریکا کی نیویارک اسٹیٹ کے گورنر کو مستعفی ہونا پڑا۔
چونکہ جدید سائنسی اور فنی ترقی کی وجہ سے موبائل فون، انٹرنیٹ، ویب سائٹ حتیٰ کہ قومی اداروں کے آئی ٹی نظام کو بھی ہیک کرلیا جاتا ہے، چند برس قبل ہمارے ایف بی آرکے آئی ٹی نظام کو ہیک کرلیا گیا تھا۔ اسی طرح ایک اصطلاح بگنگ کی بھی استعمال ہوتی ہے، اس میں موبائل فون پر چِپ لگادی جاتی ہے اور اس شخص کے بارے میں جانا جاسکتا ہے کہ وہ کس مقام پرموجود ہے،، گاڑیوں میں بھی لوکیشن جاننے کے لیے ٹریکر لگائے جاتے ہیں، اس طرح کی ٹیکنالوجی تو عام دستیاب ہے۔ لیکن انتہائی حسّاس ٹیکنالوجی حسّاس اداروں کے پاس ہوتی ہے، اسے Spyware اور Malware بھی کہتے ہیں، ایسی ٹیکنالوجی اپنے نظام کے تحفظ کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے تاکہ اسے ہیک نہ کیا جاسکے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ جس قدر سائنسی اور فنی ترقی ہوگی، جدید ترین اور حساس ترین آلات ایجاد ہوں گے، اُسی قدر نظام کے لیے بیک وقت آسانیاں، مشکلات، نیز قانونی مسائل اور پیچیدگیاں بھی پیدا ہوں گی۔