سڈنی: آسٹریلیا میں پہلی باحجاب سینیٹر فاطمہ پیمان پارلیمان میں اپنے اولین خطاب میں اپنی زندگی کی مشکلات کی روداد سناتے ہوئے رو پڑیں۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق آسٹریلیا کی پارلیمنٹ میں اولین خطاب کے دوران فاطمہ پیمان نے اراکین کو اپنے افغانستان سے پاکستان اور پھر پرتھ پہنچنے، بعد ازاں نسل پرستی کا سامنا کرنے کے باعث سیاست میں آنے کی روداد سناتے ہوئے ماضی کی تکالیف یاد کرتے ہوئے رو پڑی۔
فاطمہ پیمان نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت آنے کے بعد ہم لوگ خوف زدہ ہوکر پاکستان چلے گئے تھے بعد ازاں میرے والد ایک کشتی کے ذریعے آسٹریلیا پہنچے اور 4سال انتھک محنت کے بعد اہلخانہ کو پاکستان سے بلالیا اور پھر ہم سب یہاں دوبارہ مل کر رہنے لگے لیکن یہاں بھی مصائب کم نہ ہوئے۔
خاتون سینیٹر نے دکھ بھری روداد بتاتے ہوئے کہا کہ والد کو آسٹریلیا میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا، انہیں محنت کی انتہائی قلیل اجرت دی جاتی اور روزگار میں بھی تحفظ نہیں تھا جبکہ مجھے بھی یہاں مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور یہ سب بہت غیر یقینی تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ آسٹریلیا ایک روشن خیال ملک ہے اور یہ نسل پرستی سے آزاد ہوگا، لیکن ایسا نہیں تھا۔
27سالہ فاطمہ پیمان کا کہنا تھا کہ پہلی بار مجھے آسٹریلیا میں اجنبیت کا احساس تب ہوا جب یونیورسٹی میں میرے ایک ساتھی طالب علم نے حجاب کا مذاق اڑایا گیا اور مجھے یہ تک کہا گیا کہ جہاں سے آئی ہو۔
وہاں واپس جاﺅ،فاطمہ جو رواں سال جون میں سینیٹر منتخب ہوئی ہیں نے مزید کہا کہ ایسے لمحات میں بھی میں نے ہار نہ مانی اور سیاسی جدوجہد کا حصہ بنی رہی، اس دوران مجھے اپنے والدی کی جدائی کا دکھ بھی سہنا پڑا کہ وہ کینسر کے موذی مرض کے باعث صرف 47سال کی عمر میں انتقال کرگئے تھے۔