برسات طوفان نوح کی یاد تازہ کر گئی۔ اور ایک تنبیہ چھوڑ گئی کہ آنکھوں والو عبرت پکڑو، حکم وہی ہے بادل لوٹا دیے گئے یوں تواتر کی بارش تو برس کر چلی گئی پیچھے بے پناہ مسائل اور مشکلات چھوڑ گئی۔ برسات کا پانی جو ہر کھیت اور کھلیان پر بے نظیر آباد میں ڈیرہ جمائے وڈیرے کی جان کو آیا ہوا ہے اس کو وہ کہاں کا راستہ دکھائے۔ اس پانی کو دریا یا روہڑی کینال تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ سوائے ٹینکر میں بھر کر وہاں چھوڑنے کہ کچھ نہیں۔ یہ بھی کوئی آسان کام نہیں، ایک طرف تو فصل کی تباہی نے آمدن پر ضرب کاری لگائی ہے تو دوسری طرف یہ اضافی بوجھ۔ بات زمینداروں کی بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے اگر وہ پانی کی نکاسی پڑوس کی زمین کی طرف کرتے ہیں تو وہ زمین شکم پری سے اس کو قبول کرنے سے انکاری ہے اور اس کا مالک ڈنڈا اٹھائے کھڑا ہے۔
پڑوس کا حق تو مدت ہوئی ہوس زر نے ملیامیٹ کردیا تو بھلا اس پرافتاد دور میں جب نفسا نفسی ہے کس کو دوسرے کی کیا پڑی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے سیم کے پانی کی نکاسی کے لیے ایک سیم نالہ بنوایا تھا۔ اس سیم نالے کے ذریعے اضافی پانی سن اور سکرنڈ کے درمیان گزرنے والے دریا میں گرنا تھا مگر ایک بااثر زمیندار جو حکومت میں بھی اثررسوخ رکھتے ہیں انہوں نے اس کے گزرگاہ کا راستہ اپنی زمین سے دینے سے انکار کردیا چوں اس کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی اور یہ سیم نالہ دیکھ بھال نہ ہونے کی بنا پر جھاڑ جھنکاڑ سے اٹ گیا۔ یہ سیم نالہ برسات کے پانی کی اہم گزرگاہ بھی بن سکتا تھا۔ مگر یوں اس کی کہانی ختم ہوگئی، ضرورت سے زائد برسات کا پانی زمین سے ختم نہ ہوگا تو سیم کا پانی بن کر زرعی زمینوں کو نگلنے کے لیے نکل کھڑا ہوگا اور اربوں مالیت کی قیمتی زرعی زمین زیر آب آجائے گی اور وہ پیداواری عمل کھو بیٹھے گی۔ زیر زمین پانی کی سطح جو بلند ہونے سے سیم بڑھ رہا تھا اس کو روکنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو نے اسکارپر کا منصوبہ شروع کیا جس کا ہیڈکوارٹر سکرنڈ میں کئی ایکڑوں پر بنایا گیا اور سندھ بھر میں سیکڑوں ٹیوب ویل لگائے گئے جو زمین کا پانی کھینچ کر زیر زمین کے پانی کی سطح کو برابر کرتے تھے مگر ہوا کیا؟ یہ سیکڑوں ٹیوب ویل سندھ کی سیاسی روایت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ مشینری بک گئیں، ہیڈکوارٹر میں بنے بنگلے پر کامریڈوں، وڈیروں کے حاشیہ برداروں نے قبضے کرلیے ہیں اور کچھ نے روایتی ہیرپھیر کرکے اس زمین کی ملکیت کا دعویٰ کیا، مقدمہ ہار بھی گئے مگر جھرلو سے انہوں نے اسکارپر کی زمین فروخت کرکے خریداروں کو رجسٹری بھی کروادی۔ اندھیر نگری ہے بتائو ایک زمین کے 2 مالک ہیں کہتے ہیں کہ کوئی کام ناممکن نہیں بس قیمت جیب میں ہونی چاہیے۔ اب بھی اسکارپر کا بجلی کا بل آتا ہے جو قابضین استعمال کرتے ہیں اور ڈوبا تباہ ہوا محکمہ اسکارپ کروڑوں روپے کے بجلی کے بل کا نادہندہ ہو چلا ہے۔ اب سندھ کی 400 گنا زائد برسات سے زمین کا سیم بڑھے گا اور اسکارپ جیسے محکمہ کی ضرورت شدت سے محسوس ہوگی مگر اس کا تو کریا کرم ہوگیا۔
برسات کا پانی جو کپاس، سبزیوں سمیت جو کچھ برسرزمین تھا نگل گیا اور مارکیٹ میں قلت کا سامان ہوگیا۔ ٹماٹر اور سبزیاں آسمان سے بات کررہی ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ برسات کا پانی نہ نکلا تو ماہ اکتوبر میں گندم کی بوائی کا سیزن شروع ہوگیا۔ تو زیر آب زمین میں گندم کی کاشت کیوں کر اور کیسے ہوگی۔ اور یوں پھر کیا وہ بات پوری تو نہ ہوگی جو کتابوں میں قیامت کی علامت کے طور پر آئی ہے کہ تین سال خوب بارشیں ہوں گی اور پھر تین سال ایسا قحط پڑے گا کہ الامان الحفیظ۔ وہ حالات لوگوں کے سامنے آچکے ہیں جن میں عبرت کا سامان ہے کہ جس پانی کی خاطر سیاست کا کھلواڑ ہوتا رہا وہ اتنا ہوگیا کہ اب سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے۔ دریائوں میں گنجائش نہیں رہی اور ماہرین کے مطابق تقریباً 20 ارب ڈالر کا قیمتی پانی سب کی لٹیا ڈبو کر سمندر میں جاگرے گا۔ گندم کی بوائی کے لیے پانی کی نکاسی مشروط ہے، حکومت سندھ کے کاغذی ماہرین گندم کی بوائی کی تدبیر کے بجائے اس بات پر غور کررہے ہیں کہ گندم 40 کلو کے نرخ تین ہزار روپے کرکے کاشت کاروں کو لولی پاپ دیں مگر جب گندم کی کاشت ہی نہ ہوگی تو یہ لولی پاپ کس کام کا ہوگا۔ کپاس جو نقد آور فصل تھی وہ تباہ ہوگئی۔ آڑھیتوں سے بیج، کھاد، دوائوں کی مد میں جو قرض لیا تھا وہ بھی ڈوب گیا، اب گندم کی بوائی کے لیے قرض کا معاملہ آسان نہیں، آڑھتی ادھار میں منہ مانگا ریٹ لگاتے ہیں اور جواز چھے ماہ کا انتظار بتاتے ہیں اور مجبوراً کاشت کار کو کیش کرتے ہیں۔
برسات نے صوبہ سندھ کی طرح ضلع بے نظیر آباد کے پورے انفرا اسٹرکچر کو تباہ کردیا ہے، روڈ رستہ تباہ ہوگئے ہیں، سیوریج سسٹم برباد ہوگیا ہے۔ برسات کے ایک ہی جھٹکے نے سندھ کی ترقی کو پچاس سال پیچھے کردیا ہے۔ جب ہر جگہ لوٹ کا بازار گرم ہوا تو قدرت الٰہی خود ہی لٹیا ڈبوتی آئی ہے۔ انتخاب کرنے والوں کا کہ بھگتو اور ڈھونڈو تمہارے چہیتوں کو اب زراعت جو تباہ ہوگئی ہے یہ پیروں پر کب کھڑی ہوسکے گی۔ زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی جس میں چک پڑ گئی ہے۔ حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ کے ذریعے متاثرہ کو امداد کے لیے 25 ہزار روپے کا اعلان کیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ بے نظیر انکم سپورٹ جو عورتوں کے لیے ہے جس کو حقدار بنایا کہ غالب اکثریت حکمراں پارٹی سے منسلک گھرانوں کی عورتوں کی ہے۔ سفید پوش خوددار جو اصل حقدار ہیں وہ راہ تک رہے ہیں کہ کوئی آ کے ان کے آنسوئوں پونچھے۔ الخدمت ہی کچھ آنسو پونچھ رہی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ جو خالصتاً عورتوں کے لیے ہے اس نے اخلاقی اقتدار کی تباہی ایسی مچائی ہے کہ توبہ بھلی۔ گھرانے کا سربراہ مرد ہے اس کو مدد کی جاتی مگر عالمی استعمار کو راضی کرنے اور اقتدار پانے خواتین کو رجھانے کے لیے عورت کو بالادستی کا یوں ساماں کیا گیا اب عورتیں خود مختار بنادی گئی ہے، خود سر بنادی گئی ہے۔ یہ المیہ ہے جو ایک خرابی کی پوٹ ہے جو اٹھائی نہ جاسکے گی۔ برسات سے متاثرہ افراد کی امداد مردوں، کاشت کار کو ملنی چاہیے تھی کہ وہ اس سے زمین اور مکان کی مرمت کرائے مگر الٹی گنگا کا معاملہ کہ جو حقدار ہے وہ محروم ہے۔
پیشہ ور بھکاری اور نوسربازوں، جھوٹے مکاروں کے ٹولے سیلاب کو لوٹ کا ذریعہ سمجھ کر سرگرم ہوگئے ہیں۔ وفاق کی اس 25 ہزار روپے کی امداد سے متاثرہ افراد کی بحالی کی سوچ اس مہنگائی کے دور میں مذاق سے کم نہیں، اس رقم سے تو جھونپڑی بھی نہیں بنے گی، کچے اور پکے مکان کی مرمت بھی نہ کی جاسکے گی، یہ تو مرمت کی مزدوری بھی نہ ہوسکے۔ چہ جائیکہ سازو سامان کے کام آسکے۔ ضلع بے نظیر آباد میں ابتدائی تخمینہ کے مطابق دو لاکھ چھے ہزار ایکڑ کے لگ بھگ زرعی زمین متاثر ہوئی ہے، اُس کی فصل تباہ ہوگئی ہے۔ متاثرہ آبادگاروں کو کم از کم 20 ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے معاوضہ نہ دیا گیا تو ربیع کی فصل کی بوائی ممکن نہ ہوسکے گی۔ پیاز کی بوئی ہوئی فصل کی پنیری جڑوں سے اکھڑ چکی ہے، کھجور کی فصل تباہ و برباد ہوگئی، جنہوں نے باغات کو ٹھیکہ پر لیا ہوا تھا وہ دیوالیہ ہو کر رہ گئے ہیں، ان کی اشک شوئی کون کرے گا؟ جو حکومت سرکاری ملازمین کی 2 سے 5 دن کی تنخواہ کی کٹوتی کررہی ہے وہ سوا کھرب روپے کے نقصان کو کیونکر پورا کرسکے گی؟ حالت یہ ہے کہ ٹماٹر کی فصل متاثر ہوئی تو وہ جو 50 روپے کلو بک رہے تھے 400 روپے کلو تک پہنچادیے گئے۔ اب مستری اور مزدور ہی دہاڑی میں اضافہ نہیں کریں گے بلکہ تعمیراتی سازوسامان کو بھی پر لگ جائیں گے۔ سرکاری اسکولوں کی عمارتیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ناکارہ ہوچکی ہیں اور جو درست حالت میں ہیں وہاں برسات متاثرین ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ یوں تعلیمی سلسلہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ جانور کی بڑے پیمانے کی ہلاکت سے گوشت مہنگا ہوگا مگر یہ درد سر بڑے لوگوں کا ہے۔ مگر سبزیاں بھی غربا سے نکل گئی ہیں، پیاز سے روٹی کھانا بھی مشکل ہوگیا جو اس وقت ڈیڑھ سو روپے کلو بک رہی ہے۔ این جی اوز بھی امداد میں اپنا حصہ بٹوانے کے لیے نکل کھڑی ہوئی ہیں، تباہی اور بدحالی کے بعد بھوک، مفلوک حالی کا مرحلہ صاف نظر آرہا ہے۔ برسات ہو اور مچھروں کی افزائش نہ ہو،
گیسٹرو کا مرض نہ جڑ پکڑے، ملیریا اور ٹائیفائیڈ نہ پھیلے۔ منافع خوروں نے پیناڈول کی دس گولی کا پتا 30 روپے کا کردیا ہے۔ دوائیں تباہ حال افراد کی دسترس سے باہر ہوگئیں ہیں، گدھ امدادی سامان پر منڈلارہے ہیں ان کی روک تھام سرکاری اہلکاروں کے بس کی بات نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ بااثر ہیں اور اتنے طاقت ور کہ سرکاری افسران کا تبادلہ کرانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سکرنڈ کے اسسٹنٹ کمشنر جنید عالم اور مختار کار وسیم لاشاری ان کی بھینٹ چڑھ کر ٹرانسفر ہوچکے ہیں۔ زمیندار شکوہ کررہے ہیں کہ شہروں کے سیوریج کا گندہ پانی برسات کے پانی سے مل کر ان کی زرعی زمینوں کو پراگندہ کررہا ہے۔ یوں آنے والے دنوں میں زرعی قحط کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ متاثرہ افراد کی بحالی زرکثیر اور جاں جوکھم کا کام ہے۔ عالمی امداد نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ کینیڈا کی طرف سے 20 ہزار ڈالر کی امداد تمسخر اڑانے کے مترادف ہے۔ آرمی چیف سے بھی عالمی برادری سے اس دکھی مرحلہ میں بھرپور تعاون مانگا ہے۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ کشمیر کے زلزلے کی تباہی کے مرحلے میں عالمی اداروں کی بھرپور امداد اور کورونا کی 1200 ارب روپے کی امداد میں گھپلوں کی خبروں نے عالمی اعتماد کو متاثر کیا ہے۔