پاکستان کی شہ رگ کشمیر بھارت کے قبضے میں ہے۔ بھارت 75 برس سے کشمیریوں پر مظالم بھی کررہا ہے اور کشمیری اپنی جدوجہد آزادی بھی کررہے ہیں لیکن جس کی شہ رگ ہے وہاں کیا ہورہا ہے۔ پورا کشمیر ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے نعروں سے گونج رہا ہے اور پاکستان چور چور، ملک دشمن اور امریکا نامنظور کے نعروں سے۔ کشمیری بھارت سے عملی آزادی چاہتے ہیں اور پاکستان میں امریکا سے آزادی کی محض تقریریں ہیں۔ ایک وقت تھا کہ کشمیر سے متعلق کوئی دن کوئی موقع آجائے کراچی سے ٹکناف تک اور ساری دنیا کے پاکستانی اور کشمیری یک زبان ہو کر وہ دن مناتے تھے۔ خواہ وہ کشمیر پر فوج کشی کا دن ہو، یوم کشمیر ہو یا 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر یہ پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ کوئی کشمیری ہے کوئی پاکستانی۔ سب یک آواز تھے۔ لیکن گزشتہ چار برس میں اور اس سے قبل جنرل پرویز کے 8 برس میں تحریک آزادی کشمیر کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اس کا ازالہ اب ممکن بھی نظر نہیں آتا۔ یکم ستمبر کو تحریک حریت کشمیر کے بانی جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے سابق امیر اور ہر کشمیری کے دل کی آواز سید علی گیلانی کی پہلی برسی کے موقع پر پاکستان میں تعزیتی کتاب اور تعزیتی بیانات ہی دیے گئے۔ کشمیری یقینا بھارت سے آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں لیکن جس کے لیے وہ لوگ مررہے ہیں وہاں تو کچھ اور ہی ہورہا ہے۔ جنہیں ان کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا تھا وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ جنہیں ان کی پشتیبانی کرنی تھی وہ پاکستان میں اپنے اپنے پسندیدہ لیڈروں اور سیاسی جماعتوں کی پشتیبانی میں مصروف ہیں۔
کشمیریوں نے سید علی گیلانی کی پہلی برسی پر ہر قسم کے بھارتی دبائو کو مسترد کرتے ہوئے مکمل ہڑتال کی۔ پورے کشمیر کے عوام گھروں سے نکل آئے۔ تمام بھارتی ہتھکنڈے ناکام ہوگئے۔ ظالموں نے سید صاحب کو ان کی خواہش کے مطابق شہدا قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں دی بلکہ ان کی برسی پر بھی ان کی قبر تک لوگوں کو پہنچنے نہیں دیا۔ ایک لاش سے۔ ایک میت سے۔ ایک مردے سے اس قدر خوف۔ نہیں وہ لاش نہیں ہے۔ وہ میت نہیں ہے وہ مردہ نہیں ہے۔ ان کی آواز تھی۔ کل بند ہے۔ جب بھی یہ آواز آئی سارا کشمیر بند ہوجاتا ۔ یکم ستمبر کو بھی کشمیریوں نے یہ آواز سنی۔ ان کا پیغام مسلسل جدوجہد تھا کشمیری مسلسل جدوجہد کرتے ہیں۔ سید کا مشن حریت تھا کشمیری حریت کے متوالے ہیں۔ لیکن پاکستان میں کیا ہورہا ہے اور کیا ہوتا آیا ہے۔ تحریک حریت کشمیر کے خلاف پہلا قدم تو جنرل پرویز مشرف نے اٹھایا تھا۔ انہوں نے کشمیری مجاہدین کو دہشت گرد بنادیا۔ تحریک کشمیر کی حمایت کو دہشت گردی کی سرپرستی بنادیا۔ ایک مبہم موقف کے ساتھ کبھی تھرڈ آپریشن اور کبھی جنگ نہ لڑنے کی بات کبھی کشمیریوں سے مکمل بے اعتنائی۔ جنرل پرویز کی جو پالیسی تھی ان کے جانے کے بعد سیاسی حکومتوں نے اس پر مکمل عمل تو نہیں کیا لیکن تحریک حریت کشمیر کی اس طرح پشتیبانی بھی نہیں کی جیسا کہ اس کا حق تھا بلکہ صرف یوم کشمیر، بھارتی زیادتی پر احتجاج اور تقریروں تک معاملہ رہا۔ لیکن اس تحریک حریت اور پاکستان کی شہ رگ پر سب سے بڑا حملہ بھارت کے انتہا پسند حکمران نریندر مودی نے کیا۔ 5 اگست 2019ء کو پاکستان کی شہ رگ عملاً کاٹ دی گئی۔ جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے جداگانہ اور خود مختار ریاست سے بھارت کا حصہ بنا ڈالا۔ یہاں سے تضاد کھل کر سامنے آیا۔ پاکستان میں اس وقت عوام کی امنگوں کے تارے عمران خان حکمران تھے لیکن ان کی جانب سے کشمیر میں بھارتی اقدام پر نہایت بھونڈا اور سنگین مذاق کیا گیا۔ انہوں نے کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے ایک دو جمعے تک آدھا گھنٹہ خاموشی کا اعلان کیا لیکن یہ سنگین خاموشی اس کے بعد سے ہر فورم پر مجرمانہ خاموشی بن گئی۔ سید علی گیلانی نے تو اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا لیکن پاکستان میں صرف دو جمعے ایسے گزارے گئے کہ نصف گھنٹہ خاموش رہ کر احتجاج کیا گیا۔ ہم اچانک مہذب انگریز بن گئے۔ 2019ء کے اقدام کے بعد بھی بھارت کے قدم نہیں رُکے۔ اس نے کشمیر میں اپنے پنڈتوں کو منتقل کرنا شروع کردیا اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بھارتی حکومت ڈھٹائی کے ساتھ کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے رہی ہے۔ پاکستان کی جانب سے مایوس کن ردعمل نے بھارت کے حوصلے بڑھائے اور وہ اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ پہلی برس پر سید علی گیلانی کی قبر ہی کا محاصرہ کرلیا۔ رکاوٹیں کھڑی کردیں۔
اس ساری صورت حال کے باوجود وہ کیا چیز ہے جو کشمیریوں کو ان کے جذبہ حریت سے دور نہیں ہونے دیتی۔ وہ کیا چیز ہے جو انہیں اپنے مقصد کی خاطر جان دینے سے نہیں روک رہی۔ کشمیر کے جوان اب بھی جانیں دے رہے ہیں۔ یکم ستمبر 2022ء کو وہ اسی طرح سڑکوں پر تھے جس طرح وہ 4 اگست 2019ء سے پہلے ہوا کرتے تھے بلکہ ان کے عزم اور جوش میں زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ لیکن پاکستان میں کیا ہورہا ہے۔ حکمران پی ڈی ایم اور اپوزیشن عمران خان کس چیز کے لیے محنت کررہے ہیں۔ ان دونوں کے سرپرست طاقتور ادارے کس کے لیے محنت میں لگے ہوئے ہیں۔ کشمیر شہ رگ اور یہ سیاسی پارٹیاں اور شخصیات صرف چہرے ہیں۔ بلکہ چہرے بھی نہیں مہرے ہیں ہماری ساری قوت مہروں کی لڑائی میں صرف ہورہی ہے اور کشمیری ہماری شہ رگ دشمن کے پنجے سے چھڑانے کی جنگ لڑرہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکا کو عظیم ملک بنانے کے اعلان سے خطرے کی بو آرہی ہے۔ وہ بھارتی وزیراعظم مودی کے اقدامات پر کوئی تبصرہ نہیں کررہے جن کے اقدامات، ہاتھوں، کپڑوں سب سے خون ٹپک رہا ہے۔ پورا بھارت مسلم اور غیر مسلم اقلیتوں کے لیے جہنم بنا ہوا ہے۔ سب سرکاری پالیسی کا شکار ہیں۔ خدارا پاکستانیو… ہوش کرو… اپنی شہ رگ بچانے کی جنگ خود لڑو… سید علی گیلانی سے بے وفائی نہ کی جائے۔