شاباش! پاکستانی قوم

853

ان دنوں وطن عزیز آدھے سے زیادہ سیلاب کی نذر ہو چکا ہے۔ اس سیلاب سے ہونے والی تباہی نے 2010ء کے سیلاب کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ہر طرف ظالم سیلابی طغیانیاں پھنکار رہی ہیں جن کے راستے میں آنے والی کنکریٹ سے بنی عمارتیں بھی ریت کے گھروندے ثابت ہو رہی ہیں۔ پانی کی خوفناک لہریں بچے، بوڑھے، مرد، عورتیں، جانور مویشی، جاندار، بے جان، کسی چیز کے درمیان تمیز نہیں کر رہیں سب کو اپنے طیش کی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ کئی ایسے واقعات سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں جنہیں دیکھ کر غم سے دل بند ہونے کو جاتا ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع کوہستان کے علاقے دبیر کے وہ پانچ نوجوان ہیں جو اپنی دکانوں کے لیے سودا سلف لینے زیریں علاقے میں آئے۔ جب ان کی گاڑیاں پانی میں گھِر گئیں تو وہ گاڑیاں چھوڑ کر اپنی جان بچانے کو بھاگے اور ایک چٹان پر پناہ لی۔ پانچ گھنٹے اس چٹان پر رہے۔ پانی ہر لمحہ اونچائی پکڑ رہا تھا اور وہ نوجوان زندگی و موت کی درمیانی لکیر پر کھڑے تھے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے خبر فوراً پورے ملک میں وائرل ہوگئی لیکن صرف ارباب اختیار بے خبر رہے۔ محترم سراج الحق بتاتے ہیں کہ ’’مجھے قیصر شریف سے اطلاع ملتے ہی میں نے پہلے مرحلے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا سے اور چیف سیکرٹری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ کورکمانڈر پشاور سے بات کرنے کی کوشش کی۔ وزیراعظم کے سیکرٹری کو پیغام دیا کہ دبیر کوہستان کے مقام پر مجھے صرف ایک ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہے اور اس کا کرایہ بھی میں خود دوں گا۔ میں چیختا رہا، پکارتا رہا، رابطے کرتا رہا لیکن دیواروں کی طرح سارے اندھے، بہرے، گونگے ہو گئے اور وہ نوجوان پانی کی نذر ہوگئے۔ آج مجھے محسوس ہوا کہ پاکستان 22 کروڑ عوام کا نہیں یہ ایک فی صد وی آئی پیز کا ہے۔ گاڑیاں، موٹریں، ہیلی کاپٹر، سب کچھ صرف ان کے لیے ہے عوام کے لیے کچھ نہیں‘‘۔
بالکل درست فرمایا سراج الحق نے یہ ہیلی کاپٹر بے شک عوام کے ٹیکسوں ہی سے خریدے جاتے ہیں مگر ان پر حق صرف زرداریوں، پٹواریوں، شہبازیوں اور عمرانیوں کا ہے۔ چند کلومیٹر بھی سفر کرنا ہو تو ان کی پیٹھ صرف ہیلی کاپٹر کی سیٹوں پر ہی ٹکتی ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ہیلی کاپٹر اور طیارے کے علاوہ کسی اور سواری پر سفر کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ جب بھی ملک آفات کی لپیٹ میں ہوتا ہے تو بغیر کسی پروا کے ان کی عیاشیاں ویسے ہی جاری و ساری رہتی ہیں چاہے وہ جلسے جلوس ہوں یا غیر ملکی دورے۔ گراؤنڈ خشک کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر جا سکتے ہیں، ایک سابقہ وزیر اعظم کے لیے ناشتہ بذریعہ ہیلی کاپٹر ایک شہر سے دوسرے شہر جا سکتا ہے لیکن پاکستان کے ان بیٹوں کے لیے ہیلی کاپٹر میسر نہیں ہو سکا۔
بارہ سال پہلے ستمبر 2010ء میں جب پاکستان میں سیلاب آیا تو اقوام متحدہ نے اپنی سفیر مشہور اداکارہ انجلینا جولی کو بھیجا تاکہ حالات جان کر امداد کا تعین کیا جائے۔ واپسی پر انجلینا جولی نے اپنے اس دورے کی جو رپورٹ پیش کی اس میں اس نے جو لکھا ان میں سے صرف چند باتیں ملاحظہ کریں۔
’’مجھے یہ دیکھ کر شدید دکھ ہوا جب میرے سامنے حکومت کے بااثر افراد سیلاب سے متاثرین کو دھکے دے کر مجھ سے ملنے نہیں دے رہے تھے۔ مجھے اس وقت اور تکلیف ہوئی جب پاکستان کے وزیر اعظم نے یہ خواہش ظاہر کی اور مجبور کیا کہ میری فیملی کے لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں اور میں مل کر ان کی بے چینی دور کروں۔ میرے انکار کے باوجود وزیر اعظم کی فیملی مجھ سے ملنے کے لیے ملتان سے خصوصی طیارے میں بیٹھ کر آئی۔ جب کھانا لگایا گیا تو تعداد اور اقسام اتنی زیادہ تھی کہ کئی سیلاب میں پھنسے لوگوں کے لیے کافی ہو سکتا تھا‘‘۔ انجلینا جولی نے اقوام متحدہ کو مشورہ دیا کہ پاکستان کو مجبور کیا جائے کہ امداد مانگنے سے پہلے شاہی پروٹوکول، عیاشیاں اور فضول اخراجات ختم کریں۔
ہمارے حکمران اپنی کرتوتیں صرف ملک کے اندر نہیں عالمی سطح پر بھی دکھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیرون ممالک میں رہنے والے زیادہ تر پاکستانی ایسی آفات میں حکومت کے اکاؤنٹ میں فنڈنگ کرنے کے بجائے خدمت گار تنظیموں کو دینا پسند کرتے ہیں۔ حکمران طبقہ کی اپنی من موجیاں اور مرضیاں البتہ پاکستانی قوم اپنی اس خوبی کے حوالے سے شاباشی کی مستحق ہے کہ جب بھی وطن کو ان کے مال اور تعاون کی ضرورت پڑتی ہے یہ حاضر ہو جاتے ہیں۔ اس بار بھی سیلاب زدگان علاقوں میں حکومتی اداروں سے پہلے فلاحی ادارے پہنچے ہیں۔ ویسے ہاں۔۔۔ ہمارے بڑے بڑے جدی پشتی لیڈر بھی ایک آدھ جگہ پر نکلے ہیں مگر ان بیچاروں کو فوٹو سیشن کے لیے یہ تکلیف بھی اٹھانی پڑی ہے۔ کیا کسی نے عوام کے خون کو نچوڑ کر بنائی گئی کوئی مل یا فیکٹری سیلاب زدگان کی مدد کے لیے وقف کی ہے؟ اگر کچھ اعلان کیا ہے تو حکومتی خزانے سے دینے کا پلے سے نہیں لیکن یہاں پاکستانی قوم کا جذبہ قابل تعریف ہے۔
انہیں جو میسر ہوا ہے اپنی بساط کے مطابق سب لوگ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے مہیا کر رہے ہیں۔ صرف چند لوگوں کے علاوہ باقی ساری قوم اپنے بھائیوں کی تکلیف میں دکھی ہے۔ کوئی ملک کے اندر ہے یا باہر ہر دوسرا انسان مدد کرنے یا مدد اکٹھی کرتا نظر آرہا ہے۔ ہماری پاکستانی قوم کا ہمیشہ یہ مثبت پہلو رہا ہے کہ مصیبت میں ساتھ دینے سے کبھی بھی نہیں گھبرائے۔ کپڑے، دودھ، کھانے کی خشک اشیاء اور رقم انہیں سامان بھیجنے کے لیے جمع کروا رہے ہیں لیکن ایک مسئلہ یہ تمام چیزیں درست جگہوں پر پہنچانے کا بھی ہے کیونکہ نیٹ ورک، بجلی کی ترسیل بند اور راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ یہ ان کے اختیار سے باہر کی چیز ہے جہاں تک کچھ کرنے کا ان کا اختیار ہے وہاں پاکستان کے قابل تحسین لوگوں کو شاباش۔