مسائل کو حل کیجیے بڑھائیے نہیں

770

جب مشرقی پاکستان کا سقوط ہورہا تھا اسی وقت مشرقی پاکستان میں قدرتی آفات نے بھی تباہی مچائی ہوئی تھی، سائیکلون نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کردیا تھا اور لاکھوں اپنی جان سے گئے تھے۔ مشرقی پاکستان میں 12 نومبر 1970 کو ایک سائیکلون ٹکرایا۔ اس نے آٹھ ہزار مربع میل کے علاقے پر تباہی مچائی۔ یہ اس علاقے میں صدیوں بعد آنے والی اتنی بڑی قدرتی آفت تھی۔ ڈھائی لاکھ لوگ اس میں لقمہ اجل بنے۔ یحییٰ خان اس وقت چین کے دورے پر تھے۔ طوفان سے دو روز بعد بیجنگ سے ڈھاکا پہنچے، رات بھر رہے اور اگلے روز مغربی پاکستان چلے گئے۔ اس سائیکلون کا شکار بننے والوں سے عدم توجہی ایک بڑا سیاسی ایشو بنی۔ ڈھاکا میں اپوزیشن کے اخبارات نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا کہ نہ صرف وہ مدد نہیں کر رہی بلکہ عالمی ریلیف ایجنسیوں کی کوششوں میں بھی خلل ڈال رہی ہے۔ اس طوفان کے بعد مرکزی حکومت کی جانب سے مدد نہ ہونے کی وجہ سے ردِعمل نے مغربی پاکستان کیخلاف بہت تلخ جذبات پیدا کیے۔ شیخ مجیب الرحمن، جو اس وقت تک رہا ہو چکے تھے، ان کا کہنا تھا، ’’مغربی پاکستان میں اس سال گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے۔ ہمارے پاس جو گندم پہلے پہنچی، وہ مغربی پاکستان کی گندم نہیں تھی۔ ٹیکسٹائل کے تاجروں نے ہمارا تن ڈھکنے کو ایک گز کپڑا تک نہیں بھیجا۔ ہمارے پاس اتنی بڑی فوج ہے لیکن مر جانے والے بنگالیوں کو دفن برطانیہ کے فوجی کرتے رہے‘‘۔ اور پھر ایک واضح دھمکی، ’’وہ وقت آ رہا ہے جب ہر گائوں، گھر اور بستی میں وہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ ہمیں اپنے پر خود حکومت کرنی ہے۔ ہمیں اپنے فیصلے خود لینے ہیں۔ ہم مغربی پاکستان کے بیوروکریٹ، سرمایہ دار اور جاگیر دار کے رحم و کرم پر نہیں رہ سکتے‘‘۔ یہی کچھ صورت حال آج کل بلوچستان کی ہے۔ مشرقی پاکستان کی طرح بلوچستان بھی شورش زدہ ہے۔ لیکن ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مقدمات اور گرفتاریوں کا کھیل چل رہا ہے، اس کے نتیجے میں میڈیا میں بلوچستان کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں کے
34 اضلاع اور تین لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان میں 18 اگست تک 225 اموات ہو چکی تھیں۔ کوئٹہ کراچی ہائی وے کے علاوہ ایم ایٹ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہے۔ سیلاب اور متوقع بارشوں کے پیش نظر بلوچستان بھر میں ایک ہفتے کے لیے تعلیمی اداروں میں 27 اگست تک تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔ بلوچستان میں سیلاب سے نقصان پہنچنے والے انفرا اسٹرکچر کی بات کریں تو قدرتی آفات کے ادارے کے مطابق 26 ہزار مکانات، 710 کلومیٹر طویل شاہراہیں، 18 پل اور پانچ لاکھ سے زیادہ مویشی متاثر ہوئے۔ حکام کے مطابق نصیر آباد کے علاقے ربی میں قومی شاہراہ مکمل طور پر زیر آب ہے اور کوئٹہ کا زمینی راستہ سکھر قومی شاہراہ سے منقطع ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مون سون کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ کوہ سلیمان سے ملحقہ علاقوں میں مسلسل آٹھ سے 10 گھنٹے تک طوفانی بارش نے موسیٰ خیل، بارکھان اور کوہلو کے اضلاع کو متاثر کیا ہے۔ بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ازالے اور متاثرین کی بحالی کے لیے کم از کم 35 ارب روپے کی ضرورت ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں
کے دوران بلوچستان کے بیش تر علاقوں میں بارش ہوئی۔ ڈپٹی کمشنر موسیٰ خیل یاسر دشتی نے بتایا کہ سلیمان پہاڑی سلسلے میں گزشتہ روز آٹھ سے 10 گھنٹے مسلسل اور طوفانی بارش ہوئی جس کی وجہ سے پہاڑوں سے آنے والے پانی نے ریلوں کی شکل میں آبادیوں کا رخ کرلیا۔ لیکن حکومت اور اپوزیشن آپس میں برسر پیکار ہیں اور دونوں میں سے کوئی بھی فلاحی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
دوسری جانب اس طوفانی بارش کے باوجود بلوچستان میں دہشت گرد عناصر سرگرم ہیں اور مختلف قوم پرست جماعتیں ان شورش پسند عناصر کے ساتھ ہیں۔ شورش پسند سیکورٹی فورسز کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے۔ بلوچستان میں شورش کی تاریخ بہت پرانی ہے، بھارت نے قیام پاکستان کے بعد سے یہاں تنازعات کی بنیاد رکھ دی تھی اور بھارت نے جو چنگاری رکھی تھی اس کو شعلہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بنایا غلام محمد سے لے کر پرویز مشرف تک سب ہی نے اس جلتی پر تیل ڈالا ہے اور اس بھڑکتی آگ کو بجھنے نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری نے بطور صدر پاکستان حقوق بلوچستان پیکیج دینا چاہا لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ تمام سول اور فوجی ادوار میں جنرل ضیاء الحق کا دور بلوچستان کے لیے امن کا دور رہا۔ جب وہ برسر اقتدار آئے تو انہوں نے بلوچستان میں جاری آپریشن ختم کردیا اور وہاں عام معافی کا اعلان کردیا لیکن بلوچستان کی فلاح کا کوئی بڑا منصوبہ انہوں نے بھی نہیں شروع کیا۔ جنرل (ر) رحیم الدین جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ وہ 1978 سے 1984 تک گورنر بلوچستان رہے ان کی گورنری کا دور طویل ترین تھا۔ انہوں نے بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کر کے صوبے میں فوجی آپریشن بند کیے۔ فراری باغیوں کے پاس جا کر متاثرین کے لیے معاوضوں کا اعلان کیا اور 1980 تک بغاوت کو کچلنے میں جنرل رحیم کامیاب ہوگئے۔
آج بھی ایسی ہی حکمت عملی کی ضرورت ہے؟ جنگ اور آپریشن سے معاملات خراب ہی ہوتے ہیں۔ امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ مقامی آبادی کا اعتماد سیکورٹی فورسز کو حاصل ہو، اس کے لیے سیکورٹی فورسز میں مقامی افراد کی بھرتی مصلحت کا تقاضا ہے۔ ہماری یہ تجویز بھی ہے بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی نگرانی کے لیے پاکستان نیوی میں اہل مکران کو تربیت دے کر بھرتی کیا جائے وہ سمندر سے خوب واقف ہیں سمندر ان کا دوست ہے وہ اس کے مزاج اور موڈ سے خوب واقف ہیں۔ وہ زیر آب ہونے والی تبدیلیوں کو بھی بروقت بھانپ لیتے ہیں اگر انہیں نیوی میں بھرتی کا موقع دیا جائے گا تو انہیں بھی مادر وطن کی حفاظت کا موقع ملے گا۔ بہتر تو یہی ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز میں بھرتیوں کو کسی ایک صوبے تک محدود نہ رکھا جائے، تمام صوبوں کے جوانوں کو مساوی موقع دیا جائے۔ یہ ایک بہت بڑی شکایت ہے جس کا ازالہ کرنا ہوگا۔ اس کوتاہی یا کمزوری کو دشمن کسی دوسرے انداز سے پیش کرتا ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان اور دیگر صوبوں میں احساس محرومی بڑھتا ہے۔ دوسری جانب غیر ملکی نشریاتی ادارے اس احساس محرومی کو دشمنی کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ جبکہ سیکورٹی فورسز اپنے ہی ملک کے ناراض شہریوں کو باغی قرار دے کر ان سے دشمنوں جیسا سلوک کرتی ہیں۔ ورثے میں ملے اس برطانوی نوآبادیاتی مزاج کو بدلنا ہوگا، آقائی مزاج والے اس رویے کو بدلنا ہوگا اور بقائے پاکستان کی خاطر بلوچستان بھر میں سڑکوں اور ریل کا نظام پھیلانا ہوگا وہاں کے تفریحی مقامات پر ہوٹل اور ریسٹورنٹ بنانے ہوں گے اور اس کے لیے مقامی آبادی کو سرمایہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فراہم کریں۔ تاکہ ان کے لیے روزگار کے زیادہ سے زیاد مواقع ملیں کیونکہ گہرے زخموں کو مندمل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ مرہم تو لگانا ہوگا۔