ورلڈ جونیئر اسکواش ٹیم چمپئن شپ میں پاکستانی ٹیم شاندارکارکردگی کے باوجود سیمی فائنل میں ٹاپ سیڈ مصر کے ہاتھوں شکست کے بعد مقابلے سے باہر ہوگئی ہے۔ تھرڈ سیڈ پاکستان نے کوارٹر فائنل میں روایتی حریف بھارت کو تو زیر کر لیا تھا لیکن سیمی فائنل میں مصریوں کے خلاف اس کا جادو نہیں چل سکا۔ یہ فیصلہ کن میچ ہارنے کے نتیجے میں کافی عرصے بعد پاکستان کے فائنل میں پہنچنے کی امیدیں دم توڑ گئیں ہیں۔ جونیئر اسکواش کے متعلق بات کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان ورلڈ جونیئر اسکواش چمپئن شپ کی تاریخ کی سب سے مشہور ٹیموں میں سے ایک ہے۔ کوارٹر فائنل میں انگلینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستان 2018 کے ایڈیشن میں سیمی فائنل کھیلنے سے محروم رہا تھا۔ جب کہ 1996 سے 2016 کے درمیان پاکستان نے لگاتار 11 سیمی فائنل کھیلے تھے اور وہ آٹھ ایڈیشنز کے فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب رہا جن میں سے چار میں اسے کامیابی ملی تھی۔
دراصل ہاکی اور کرکٹ کے بعد اسکواش وہ تیسرا کھیل ہے جس میں پاکستانی کھلاڑی ماضی میں نہ صرف کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے رہے ہیں بلکہ یہ اعزازات عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ میں اضافے کا باعث بھی بنتے رہے ہیں۔ 1980 اور 90 کی دہائیوں میں قمرزمان، جہانگیر خان اور جان شیر خان دنیائے اسکواش کے بے تاج بادشاہوں کے طور پر اپنا سکہ جماتے رہے ہیں البتہ پچھلی دودہائیوں کے دوران ہمیں جہاں ہاکی اور کرکٹ میں کسی بڑی کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا اسی طرح اسکواش کے میدان میں بھی ہمارا دامن کسی بڑے عالمی ٹائٹل سے خالی رہا ہے البتہ یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ پچھلے چار سال میں پاکستان اسکواش فیڈریشن نے نوجوان کھلاڑیوں پر بہت زیادہ سرمایہ کاری شروع کی ہے۔ انہیں مراعات اور سہولتیں دینے کے علاوہ ایسا ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے نوجوان کھلاڑیوں کو آگے آنے کے مواقع مل سکیں۔ پاکستان میں اسکواش کے مستقبل کے متعلق پاکستان اسکواش فیڈریشن کے سینئر نائب صدر ائر مارشل عامر مسعود کا کہنا ہے کہ ہم نوجوان کھلاڑیوں کی تلاش کے علاوہ ان کی تربیت اور کوچنگ کے معیار کو بھی بہتر بنارہے ہیں۔ بقول ان کے ہم نوجوانوں کے کیمپوں میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ انڈر 19، 17 اور 15 کی سطح پر بھی درجہ بندی کر کے کھلاڑیوں کو آگے آنے کے مواقع فراہم کررہے ہیں، پچھلے سال ان کیمپوں میں بمشکل 100 لڑکے اور لڑکیاں تھے جبکہ اس سال ان کی تعداد 500 سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور ان میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔
دوسری جانب یہ بات قابل اطمینان ہے کہ اسکواش میں ابھرتے ہوئے ہمارے بعض نوجوان کھلاڑیوں کا تعلق اسکواش کے روایتی خاندانوں کے علاوہ معاشرے کے دیگر عام افراد سے ہے لیکن اسکواش کے روشن مستقبل کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمیں روایتی خاندانوں پر انحصار کے بجائے ٹیلنٹ کے متنوع پول کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی جس کی بہترین مثال مصر اور ملائیشیا ہیں جنہوں نے اسکواش میں برتری حاصل کرنے کے لیے ملکی سطح پر ایک جامع نظام بنایا ہے۔ قارئین کو یہ جان کر دلچسپ حیرانگی ہوگی کہ گزشتہ روز جب میں نے فیس بک پر گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول کینٹ 1پشاورکے ایک بچے کو اسکول کے پرنسپل ریاض بہار صاحب سے ملکی سطح پر انڈر13 اسکواش چمپئن شپ میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے پر اعزازی سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہوئے دیکھا تو مجھے بڑا خوشگوار تجسس ہوا کہ ایک ایسے سرکاری اسکول کا طالب علم کیوں کر ملکی سطح کی چمپئن شپ میں پوزیشن حاصل کرسکتا ہے جہاں سرے سے اسکواش کی بنیادی سہولت ہی موجود نہیں ہے، اس پر میں نے اسکول کے وائس پرنسپل اقتدار علی صاحب جو میرے قریبی دوست ہیں سے رابطہ کرکے اس بچے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے یہ کہہ کر مجھے حیران کردیا کہ صرف یہی بچہ نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی اس اسکول میں مزید تین بچے ایسے ہیں جو ملکی سطح کے ٹورنامنٹس میں نمایاں پوزیشن حاصل کرچکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب انہیں ان بچوں کے ٹیلنٹ کا علم ہوا تو انہوں نے ان کو اپنے اسکول میں اس نیت سے داخل کروا دیا کہ یہاں سے انہیں اسکواش کے میدان میں آگے بڑھنے کے نسبتاً بہتر مواقع دستیاب ہوں گے۔ اقتدار علی نے بتایا کہ انہوں نے اپنی ذاتی دلچسپی سے ان بچوں کے لیے پشاور اسکواش کمپلیکس میں داخلے کے علاوہ ان کے لیے کٹ اور کوچ تک کا بندوبست کیا جس کے نتائج اب ان میں سے ایک بچے شاہ زیب جو ساتویں جماعت کا طالب علم ہے کی جانب سے قومی انڈر 13 چمپئن شپ میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ اس تناظر میں ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ پشاور کا ایک چھوٹا سا گاؤں (نواں کلی) اگر ملک کو اسکواش میںچھے سے زیادہ عالمی چمپئن دے سکتا ہے تو تھوڑی سی منظم منصوبہ بندی اور وسائل کی فراہمی سے کیا ہم ملک کے کونے کونے سے ایسے ہیرے تلاش نہیںکرسکتے ہیں جن کی صلاحیتوں کو پالش کرکے انہیں اسکواش کی دنیا میں پاکستان کے بہترین سفیر بنایا جاسکتا ہے۔
حرف آخر یہ کہ اگر ہم اسکواش میں اپنی عظمت رفتہ کی بحالی چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر چاروںصوبوں کے نوجوان خون پر مشتمل ایک ملک گیر پول بنا کر ان منتخب شدہ نوجوانوں کی عالمی ضروریات کے مطابق بہترین تربیت کا بندوبست کرناہوگا۔ ان نوجوان کھلاڑیوں کے لیے تربیت، وظائف اور روزگار کے بہتر مواقع پیدا کر کے ہم اگلے چار پانچ سال میں نہ صرف عالمی سطح کے کھلاڑی پیدا کرسکتے ہیں بلکہ منظم منصوبہ بندی کے تحت مستقبل میں دنیائے اسکواش میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر کے پاکستان کا نام بھی ایک بار پھر روشن کرسکتے ہیں۔