سیاست کے داؤ پیچ آزمائیں، اپنے پتے کھیلیں

503

سیاست میں گرفتاری، جیل جانا، تھانے کچہری کا سامنا کرنا معمول کی بات ہے، لیکن یہ اعزاز صرف قائد اعظم کو حاصل ہے کہ انہوں نے ایک بڑی سیاسی تحریک برپا کی، پاک وہند کی سیاست میں بھرپور سیاسی کردار ادا کیا، لیکن کبھی گرفتار نہیں ہوئے، انہوں نے کبھی قانون کی حدود کو نہیں توڑا۔ اب پاکستان کی سیاست میں تشدد کا غلغلہ ہے، لیکن پاکستان کی سیاست کب تشدد سے پاک رہی ہے۔ پنجاب پولیس تو ہمیشہ سے ایسی ہی رہی ہے۔ شاہی قلعہ کے عقوبت خانے کچھ ایسے ہی تو مشہور نہیں ہوئے۔ کتنے سیاست دان ان عقوبت خانوں میں مارے گئے، حسن ناصر کو کیسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، شورش کاشمیری پر کیسے ستم ڈھائے گئے۔ شورش نے پہلی تقریر مسجد شہید گنج کے ہنگامے کے دنوں میں 1935ء میں شاہی مسجد لاہور میں کی تھی۔ جس پر وہ گرفتار ہوئے مقدمہ چلا تین سال قید اور تین سو جرمانے کی سزا ہوئی بعد میں تین ماہ کی قید کے بعد وہ رہا ہوگئے۔ 1935ء سے 1939ء تک ہر سال چند ماہ جیل میں جانا ان کا معمول تھا۔ 1944ء میں صرف 47سال کی عمر میں 9برس جیل میں گزار چکے تھے۔ ایوب خان کے آمریت کے دور میں بھی انہوں نے حق گوئی کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔ اور اس دور میں بھی 232 دن جیل میں گزارے۔ دور کیوں جائیے۔ ’’ایک عہد ستم کی داستان‘‘ میں کیسے کیسے سیاست دانوں پر پولیس نے مظالم کے پہاڑ توڑے۔ بھٹو کے اس عہد ستم میں محمد صلاح الدین شہید پر کیسے کیسے مقدمے بنائے، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، جاوید ہاشمی ابھی زندہ ہیں۔ مصطفی کھر کا عہد گورنری کیسا تھا، جوان لڑکیاں کالجوں سے اٹھا کر گورنر ہائوس پہنچائی جاتی تھی، بھٹو کی نتھ فورس کیسے شریف خاندانوں کے گھروں میں عورتوں کی بے حرمتی کرتی تھی، پولیس اور ایف ایس ایف مسجد میں جوتے سمیت کیسے گھس جاتی تھی۔
محمود خان اچکزئی سے پوچھیے کہ ان کے والد عبدالصمد خان اچکزئی کو کس نے قتل کیا تھا؟ مولانا فضل الرحمن سے پوچھیے کہ مفتی محمود کی ٹرین کی بوگی پر بموں سے حملہ کس نے کیا تھا؟ جماعت اسلامی سے پوچھیے کہ ڈیرہ غازی خان کے درویش صفت ڈاکٹر نذیر احمد کو کس نے شہید کیا۔ جے یو آئی بلوچستان کے مولوی شمس الدین کی شہادت کیسے ہوئی؟ حیات محمد خان شیرپائو کو کس نے مارا تھا؟ مسلم لیگ والے خواجہ سعد رفیق کے منہ پر کیوں تالے لگے ہیں، ان سے پوچھیے کہ ان کے والد خواجہ رفیق کو کس نے قتل کروایا تھا؟ لیاقت باغ میں عبدالولی خان کے جلسے پر فائرنگ کروا کر 11 افراد کس نے مار ڈالے تھے؟
بھٹو دور پاکستان کی تاریخ کا فسطائیت کا تاریک دور تھا۔ جس میں مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لیے فیڈرل سیکورٹی فورس بنائی گئی تھی۔ بھٹو دور میں جیلوں میں قیدی اس قدر زیادہ تھے کہ جیلوں میں گنجائش نہیں تھی۔ شیخ رشید، معراج محمد خان، تو ان کے اپنے تھے، ان کے ساتھ کیا کیا۔ مولانا محمد خان شیرانی سے پوچھیے کہ ان کے ساتھ اس دور کی جیل میں کیا گیا تھا؟ ائرپورٹ پر مولانا شاہ احمد نورانی کی پگڑی کیسے اچھالی گئی۔ نوجوان نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ بھٹو دور میں امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کی ڈاڑھی کیسے نوچی گئی، ان کی شلوار میں چوہے کیسے چھوڑے گئے۔ بھٹو ایک سیاسی عفریت تھا، اس دور کی جیل میں گزرنے والی قیامتوں کی تفصیل ہولناک بھی ہے اور جان لیوا بھی۔ ضیا الحق نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کو سر عام کوڑے مارے، پیپلز پارٹی اور ایم آر ڈی کے لیڈروں اور کارکنوں پر تشدد کیا گیا۔ نواز شریف کا دور کون سا صاف ستھرا تھا۔ انہوں نے بھی اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے پورا زور لگایا۔ عمران خان نے بھی اپنے دور میں میاں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز کو جیل میں ڈالے رکھا، رانا ثنا اللہ پر مقدمات قائم کیے۔ تو اب عمران خان کو شہباز گل، عمران ریاض، جمیل فاروقی، پر ہونے والے تشدد پر ریاستی اداروں کو دھمکی دینا، اور شور مچانا کچھ زیب نہیں دیتا۔ آپ جس سیاسی کلچر کا حصہ ہیں۔ یہ سب اس میں روا ہے۔ آپ نے بھی میر شکیل الرحمن کو، حامد میر کو، اور دیگر میڈیا کے اداروں کی آواز کو اسی طرح بند کیا ہے، اب جو کچھ ہورہا ہے، اسے مکافات عمل سمجھ کر برداشت کیجیے۔ جواں مردی سے اس کا مقابلہ کریں، سیاسی انداز میں سیاست کریں۔ داؤ پیچ آزمائیں، اپنے پتے کھیلیں۔ اس سے ہی لیڈر بنتے ہیں، اور اسی طرح سے کامیابی ملتی ہے۔